بصیر نوید
سندھ کے رہنے والے تمام باشندے ابھی تک اس صدمے سے باہر نکل نہیں پائے جو ان کو پاکستان کی سب سے بڑی عدالت کے سربراہ کی جانب سے سندھ دشمن ریمارکس کے باعث پہنچا ہے۔ جسٹس گلزار احمد نے ان ریمارکس کے ذریعے سندھیوں کے ساتھ اپنی انتہائی نفرت کا اظہار کیا ہے۔
اپنے عدالتی ریمارکس میں وہ کہتے ہیں کہ” ہو کیا رہا ہے؟ پتا نہیں کہاں سے لوگ چلے آتے ہیں” آگے فرماتے ہیں کہ”جھنڈے لہراتے ہوئے شہر میں داخل ہوتے ہیں کسی کو نظر نہیں آتے” ایک اور تبصرے میں کہتے ہیں کہ “کم از کم 15 سے 20 تھانوں کی حدود سےگذر کر آئے ہوں گے کسی کو نظر نہیں آیا؟ اسکے بعد اپنے خوف کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ “ابھی وہاں رکے ہیں کل یہاں بھی آجائیں گے”۔
یہ جو خوف کا اظہار کیا ہے بالکل درست ہے کیونکہ وہ وقت قریب آرہا ہے جب لوگ نام نہاد انصاف کے اداروں پر دھاوا بولیں گے اور جب تخت اچھالے جائیں گے۔ لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے۔
آپ نے دیکھا، سب سے بلند ترین عدلیہ کے سب سے بلند ترین افسر کے ذہنی معیار کو؟ آپ اس بات سے اندازہ لگائیں کہ ان کے ماتحت ججوں کا ذہنی معیار کیا ہوگا؟ چیف جسٹس کو معلوم ہی نہیں کہ سندھی اس خطے کی سب سے قدیم ترین قوموں میں صف اول کا درجہ رکھتے ہیں، اور پورے برصغیر کی تہذیب و تمدن کے سالار ہیں۔
جسٹس گلزار نے اپنے ریمارکس کے ذریعے پاکستانی آئین کے بہت سارے آرٹیکلز کی کھلے عام خلاف ورزی کی۔ جن کے باعث ان کو عہدے سے ہٹا کر ان پر آئین کا مذاق اڑانے پر غداری کا مقدمہ چلنا چاہئے۔ مثال کے طور پر انہوں نے اندرون سندھ سے آنے والے مظاہرین سے نفرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جھنڈے لہراتے ہوئے شہر میں داخل ہوتے ہیں، یہ جملہ انتہائی نسل پرستانہ، تعصب اور کسی آبادی سے نفرت کا اظہار ہے جو آئین کی بنیادی پالیسی کے خلاف ہے جو آرٹیکل 4 اور 25 وغیرہ کے خلاف ہے، اگر کوئی کسی لسانی یا قومی گروہ سے نفرت کرتا ہے وہ سیدھا سیدھا ملک دشمنی اور نسل پرستی کے زمرے میں آتا ہے لہذااسی بنیاد پر ان کے خلاف نسل پرستی اور نفرت پھیلانے کا مقدمہ چلانا چاہئے۔
آرٹیکل 14 میں درج ہے کہ ہر فرد کی عزت یا احترام قانون کے تحت نا قابل تنسیخ ہے۔ جب وہ یہ کہتے ہیں کہ پتا نہیں کہاں سے لوگ چلے آتے ہیں تو اس جملے کا مطلب ان لوگوں کی تضحیک ہے جو اس صوبے کے باشندے ہیں مگر شہروں سے تعلق نہیں رکھتے۔
آرٹیکل 16 کے تحت ہر شہری کو اسمبلی یا اجتماع کا حق حاصل ہر ایک اوسط درجے کی تعلیم کے سرٹیفیکیٹ رکھنے والے چیف جسٹس کو معلوم ہی نہیں کہ آئین کسی کو بھی اجتماع کرنے سے نہیں روک سکتا۔
آرٹیکل 15 کے تحت ہر شہری کو آزادانہ نقل و حمل کی آزادی ہے۔ اگر کراچی سمیت پورے صوبے سے لوگ کسی ایک جگہ جمع ہوتے ہیں تو یہ ان کو آئین اور قانون اجازت دیتا ہے۔ شاید ہمیں اپنے چیف جسٹس کو آئین و قانون بھی پڑھانا پڑے گا۔
آرٹیکل 25 ہی اگر چیف جسٹس گلزار احمد پڑھ لیتا تو شاید سندھ کے شہریوں کے خلاف ہرزہ سرائی نہ کرتا۔
آرٹیکل 19 سے بھی چیف جسٹس ناواقف ہے اسکا ذکر تو ہر فرد کرتا ہے آئین کی کتاب ہی کھول کر دیکھ لیں۔ اسی طرح آرٹیکل 24 بھی پڑھ لیں جو کہتا ہے کہ کسی بھی شہری کو اسکی ملکیت یا جائیداد سے محروم نہیں کیا جاسکتا۔ جبکہ بحریہ ٹاؤن اور ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی دن رات کھلے عام یہی کام کررہے ہیں مگر واجبی سی علمیت رکھنے والے چیف جسٹس کو معلوم ہی نہیں یا پھر وہ آئین اور قانون کو کسی کوڑے دان میں پھینک کر مختلف آبادیوں کے خلاف نفرتیں پھیلا رہے ہیں۔
لہٰذا سندھ کے تمام شہریوں کا مطالبہ ہے کہ مختلف آبادیوں کے درمیان نسلی تعصب اور نفرتیں پھیلانے، سندھ کے شہریوں کو ان کے بنیادی اور آئینی و قانونی حقوق کی تضحیک کرنے اور آئین کے بے شمار آرٹیکلز کی خلاف ورزی کی ترغیب دینے پر پاکستان کی اعلیٰ عدلیہ کے سربراہ جسٹس گلزار احمد کو انکے عہدے سے فوری برطرفی کرکے انکے خلاف آرٹیکل 6 کے تحت ملک دشمنی کا مقدمہ چلایا جائے۔
ذاتی زندگی میں بھی ہمیں کہیں نظر نہیں آتا کہ انہوں نے اعلیٰ تعلیم حاصل کی ہو۔ شریف الدین پیر زادہ کے زیر سایہ مقدمات کی فائلیں ادھر ادھر کرکے ان کی تاریخیں لینے کا ہنر رکھتے تھے۔ ہائی کورٹ کے جج، ایم کیو ایم کے کوٹے اور شریف الدین پیر زادہ کی سفارش پر بنے ورنہ ہائی کورٹ کی کینٹین کے مستقل ممبر تھے جو ذرا بھاری جیب والا وکیل داخل ہوتا اسکی نشست کے پاس جا بیٹھتے تھے۔
ہاں شادیوں کا شوق کم عمری سے ہی تھا، تین عدد شادیاں ریکارڈ کے مطابق ہیں، بچوں میں بھی خود کفیل ہیں، تیرہ بچے بیویاں اپنے ساتھ جہیز میں لائی تھیں جبکہ انکے اپنے تین بچے ہیں آج کی دنیا میں تین بیویاں اور سولہ بچے تنخواہ میں نہیں پل سکتے البتہ دیگر ذرائع ضروری ہیں۔
پنڈی والوں کا انتخاب ایسے ہی نہیں ہوتا وہ کچھ سوچ سمجھ کر ہی اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کی تعیناتی کرتے ہیں۔
بشکریہ:۔
https://balochistanaffairs.com/
♦
بصیر نوید، انٹرنیشنل ہیومن رائٹس کونسل، ہانگ کانگ کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ہیں
4 Comments