ذیشان ہاشم
اس وقت دنیا میں بہت سی انقلابی تبدیلیاں آرہی ہیں جن میں سے چار بہت اہم ہیں جو ان تبدیلیوں کا موجب بن رہی ہیں۔
اول : آرٹیفیشل انٹیلیجنس آ نہیں رہی بلکہ آ چکی ہے ۔ ہیلتھ سیکٹر میں اس نے کام کرنا شروع کر دیا ہے اور باقی سیکٹرز میں ٹرائل پر ہے۔ بگ ڈیٹا اب ایک حقیقت ہے اور یہی حقیقت آرٹیفیشل انٹیلیجنس سے ایسے کام کروانے جا رہی ہے جو آپ نے نہ کبھی سوچے نہ دیکھے۔
دوم : گرین ٹیکنالوجی : کلائمیٹ چینج ایک بہت بڑا چیلنج ہے اورحقیقت یہ ہے کہ اس مسئلہ سے نمٹنے کے لئے ٹیکنالوجی بدل رہی ہے ، حکومتی پالیسیز بدل رہی ہیں اور کمپنیوں کی حکمت عملی بدل رہی ہیں ۔ کیا آج سے کچھ عرصہ قبل کسی نے سوچا تھا کہ پیٹرول پمپ کا کاروبار بالکل ہی ختم ہو جائے گا ؟ جی ہاں ، الیکٹرک کاریں مارکیٹ میں آ چکی ہیں ، ان کی پروڈکشن دھڑا دھڑ ہو رہی ہیں اور ماہرین کے مطابق دس سال بعد امریکہ و برطانیہ جیسے ممالک میں پیٹرول پمپ اور گیس سٹیشنز مشکل سے ملیں گے ہر طرف الیکٹرک کارز اور اس کی بیٹریز کے فللنگ اسٹیشنز ہوں گے – ۔۔۔ الیکٹرک کاروں کی ٹیکنالوجی کو موجودہ شکل میں آنے میں ایک صدی لگی ہے اور چالیس برس کی کمرشل جدوجہد ہے ۔
ایک اور انقلابی تبدیلی یہ آئی ہے کہ بجلی کی بہت ہی بڑے پیمانے پر ایکسپورٹ بذریعہ “سب میرین کیبل” ۔ صرف چار دن پہلے ناروے نے امریکہ کو بجلی ایکسپورٹ کی ہے اور تاروں کو سمندر سے لے جایا گیا ہے ، یہ تجربہ کامیاب رہا ہے اور اب ڈنمارک اور ناروے یو کے کے لئے ایسی بجلی کی ترسیل کا پروجیکٹ شروع کرنے لگے ہیں ۔
سوم : ڈیجیٹل کرنسی ۔ چین اعلان کر چکا ہے کہ وہ اپنی ڈیجیٹل کرنسی لا رہا ہے ، یورپی یونین نے کل اعلان کر دیا ہے ۔ ڈیجیٹل کرنسی کا” لاگرتھم” کا ماڈل یہ بتائے گا کہ کرنسی کس سے کس کے پاس جا رہی ہے کیا چیز تبادلہ کی جا رہی ہے ۔ کرنسی کی سرکولیشن کا پورا ٹریک ہو گایہ ایک انتہائی حیران کن چیز ہو گی ۔
چہارم : پین ڈیمک رسپانس فریم ورک : کووڈ اول پالیسی کوآرڈینیشن کی ناکامی قرار دیا جاتا ہے ابھی ہونے والی جی سیون کی میٹنگ میں اس پر اتفاق کیا گیا ہے کہ آئندہ کے کسی پین ڈیمک سے نبردآزما ہونے کے لئے گلوبل الارمنگ اور رسپانس سسٹم ہونا چاہئے اور دوسرا یہ یقین دہانی کرائی گئی ہے کہ اگلے کسی بھی پین ڈیمک سے نمٹنے کے لئے ویکسین زیادہ سے زیادہ سو دنوں میں اپنے ٹرائل مکمل کر کے دستیاب ہو گی ، یاد رہے کہ اب ویکسین کی تیاری ، ٹرائل اور کمرشل دستیابی کے لئے تین سو دن لگے ہیں۔ اس وقت تقریبا سارے ترقی یافتہ ممالک اپنے ہیلتھ سیکٹر کو بہتر بنانے کے ریفارمز لا رہے ہیں کیونکہ کووڈ ایک طرح سے ہر ملک کے ہیلتھ سیکٹر کا ٹیسٹ تھا۔
اب ان سب چیزوں میں ہمارا حصہ کیا ہے ؟ کچھ بھی نہیں ۔۔۔۔۔۔ آپ اس سے اندازہ لگائیں کہ دنیا آرٹیفیشل انٹیلیجنس ، گرین ٹیکنالوجی ، ڈیجیٹل کرنسی اور پین ڈیمک رسپانس فریم ورک میں مصروف ہے مگر ہمارا وزیر اعظم خواتین کے لباس میں الجھا ہوا ہے ۔ پوری قوم ڈرامہ کوئین بنی ہوئی ہے۔ستم یہ بھی نہیں کہ تقریبا پچانوے فیصد عوام خواتین کے لباس کے بارے میں ویسا سوچتی ہے جیسے وزیراعظم ، بلکہ ظلم یہ ہے کہ ہمارے دانشوروں کی اکثریت بھی یہی سوچتی ہے۔ اس صورت میں آپ دنیا کو سوائے بکواسیات کے کیا دے سکیں گے؟