سید سبط حسن گیلانی
کہا جاتا ہے یہ دنیا کا قدیم ترین پیشہ ہے ۔ہر قوم ہر مذہب ہر کلچر ہر زبان میں اس کی تاریخ موجود ہے ۔ ہندوستان میں ہزاروں سال پرانی اس کی تاریخ ہے ۔ کوئی ایسا بڑا شہر نہیں تھا جہاں یہ مخصوص بازار موجود نہیں تھے ۔ ان بازاروں کو قانونی اور سماجی قبولیت اور تحفظ حاصل تھا ۔ عرب تاریخ میں بھی ایسا ہی تھا ۔ ہر سرائے میں یہ (سہولت) حاصل تھی ۔ ہماری اسلامی تاریخ میں اس کا ذکر موجود ہے ۔ ساری دنیا میں کم و بیش ایک جیسا ہی طریقہ کار تھا ۔ یہ بازار سمندری بندر گاہوں اور فوجی چھاونیوں کے قریب آباد کیے جاتے تھے ۔
اس موضوع پر مجھے عظیم افسانہ نگار غلام عباس کا مشہور افسانہ آندی یاد آ رہا ہے ۔جو اس موضوع پر حرف آخر ہے ۔ یہ افسانہ جسم فروشی بالا خانے اور سماجی تمدن کلچر کے پس منظر اور تانے بانے سمجھنے میں مدد دیتا ہے ۔ اور بھی ڈھیروں ادبی شاہ کار ہیں اس موضوع پر مگر میں سمجھتا ہوں آندی میں دریا کو کوزے میں بند کر دیا گیا ہے۔ادبی ہنر کا شاہ کار ہے یہ ۔ اسے ضرور پڑھیے ۔ ترقی یافتہ اقوام نے اس زمینی حقیقت و فطرت کے تقاضوں کو کھلی انکھوں سے عقلی بنیادوں پر ڈیل کیا ہے اور اس میں خاصی حد تک کامیابی حاصل کی ہے ۔
شراب اور جسم فروشی کے بارے دو رائے موجود ہیں اور ساری دنیا میں موجود ہیں ۔ایک رائےمذہبی ہے کہ یہ گناہ کبیرہ ہے ۔ دوسری رائے کہ یہ ایک سماجی جرم بھی ہے ۔ جہاں تک گناہ کا معاملہ ہے یہ خدا اور اس کی مخلوق کا آپسی معاملہ ہے، وہ اسے معاف کرتا ہے سزا دیتا ہے اور جہنم کا فیصلہ کرتا ہے یہ سرا سر خدا کے اختیار کا معاملہ ہے ۔کسی فرد گروہ یا ریاست کا نہیں ۔ دوسرا مرحلہ گناہ اور جرم کی سرحد ہے ۔ کس وقت گناہ گناہ کی حد تک رہتا ہے اور کس وقت گناہ آگے بڑھ کر جرم کی شکل اختیار کر لیتا ہے ۔ یہ قدرے تفصیلی موضوع ہے ۔
مختصراً اتنا عرض ہے کہ شراب نوشی یا جنسی اعمال سماجی امن یا دوسرے شہریوں کی زندگی کے لیے خطرہ بننے لگیں تو اس وقت ریاست حرکت میں آتی ہے اور آگے بڑھ کر اسے اپنی قوت سے روکتی ہے اور جرم ثابت ہونے پر سزا تجویز کرتی ہے ۔ مثلا 18 سال سے کم عمر نوجوانوں کو شراب فروخت کرنا جرم ہے ۔شراب پی کر گاڑی چلانا جرم ہے ۔ نشے کی حالت میں اپنے پیشہ ورانہ فرائض سرانجام دینا جرم ہے ۔ 16 سال سے کم عمر بچوں کا باہمی رضا مندی سے بھی جنسی اعمال جرم تصور ہوتے ہیں ۔ شادی شدہ افراد بھی دوسرے کی رضا مندی کے بغیر ایسا عمل کرنے کی کوشش کریں تو جرم سمجھا جاتا ہے ۔ جسم فروشی کے الگ سے مخصوص بازار قائم کر دیے جاتے ہیں جہاں عورتوں کو ہر چند ماہ بعد صحت یابی کا سرٹیفکیٹ حاصل کرنا ضروری ہوتا ہے ۔ اس کام کو سماج کے عام دھارے سے الگ کر کے محدود کر دیا جاتا ہے ۔
یورپ میں ایک پولیس افسر سے اس موضوع پر گفتگو کے دوران اس نے بتایا کہ ہم اس کام میں ملوث عورتوں اور مردوں پر نگاہ تو رکھتے ہیں مگر سختی نہیں کرتے ۔اگر سختی کریں گے تو یہ جرم اپنی حد سے آگے بڑھ کر معاشرے کے باقی جسم کے اندر پھیل جائے گا اور ہمارے کنٹرول سے باہر ہو جائے گا ۔ عام شریف عورتوں اور بچوں پر ریپ کی ریشو بہت بڑھ جائے گی ۔
اور ہمارے ہاں یہی کام ہوا ہے ۔ضیا دور میں شراب اور جسم فروشی پر مکمل ریاستی پابندی اور قانون سازی نے اسے معاشرے کے پورے جسم میں پھیلنے کے وسیح مواقعے فراہم کیے ۔ ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق لاہور کے ایک محلے میں ایک عورت کے پاس دو سے تین سو لڑکیوں اور عورتوں کا ریکٹ ہے اور وہ تھانے میں لاکھوں روپے ماہانہ بھتہ دیتی ہے اور پولیس اسے تحفظ فراہم کرتی ہے ۔ یہی حال شراب کا ہے ۔ ہر تیسرا چوتھا آدمی شراب پیتا ہے اور غیر قانونی طور پر غیر معیاری شراب کھلے پیمانے پر تیار بھی ہوتی ہے اور فروخت بھی اور پولیس بھتہ لے کر اس عمل کو تحفظ فراہم کرتی ہے ۔
اب ہمارا سارا معاشرہ ان جرائم کی آماجگاہ ہے ۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ ان جرائم سے معاشرہ ممکن حد تک محفوظ رہے تو پھر آپ کو وہی راستے اور طور طریقے اپنانے پڑیں گے جو جدید دنیا نے اپنائے ہیں ۔ ان دو بڑی سماجی زمینی و فطری حقیقتوں کو قانونی تحفظ فراہم کر کے حدود مقرر کر دیجئے ۔ بصورت دیگر معاشرے کو مزید گلنے سڑنے دیجئے ۔ آنے والے دنوں میں جو سماجی حصے اس بیماری سے بچے ہوئے ہیں وہ بھی نہیں بچ پائیں گے۔
♠