حسن مجتبیٰ
پاکستان میں مفتی عزیز کی اپنے مدرسے کے ایک طالب یا شاگرد کیساتھ جنسی فعل کی وڈیو وائرل ہونیکے بعد غلط طور پر ہم جنس پرستی یا ہوموسکسیئولٹی پر بحث بھڑک اٹھی ہے اگرچہ ریپ، زبردستی جنسی دست درازی، ہراسگی، بچہ بازی یا چائلڈ ابیوز کا تعلق ہم جنس پرستی سے قطعاً نہیں۔ کوئی کہہ رہا ہے کہ مدرسے گیز پیدا کرنے کی نرسریز ہیں کوئی کہہ رہا ہے کہ ہم جنس پرستی کے، کیونکہ ہم جنسیت کے لیے اکثر نفرت بھرے لفظوں میں “لونڈے بازی” کے مراکز ہیں کہا جاتا ہے۔
بھائی اور بہنیں لوگ یہ جانتے ہوئے بھی معصوم بن رہے ہیں کہ دو بالغوں کے درمیان پھر وہ دو مرد ہوں یا دو عورتیں یا دو ایک ہی یا مخالف جنس کے دو ہم عمر انسانوں کے درمیان جنسی فعل باہمی رضا اور بخوشی “بد فعلی” نہیں بلکہ خوش فعلی ہے۔ ہم جنس پرستی یا کوئی بھی جنس پرستی اور جنسی جرائم وتشدد میں زمین آسمان کا فرق ہے۔
مجھے مفتی عزیز اور اس کے شاگرد کے کیس کا خاص طور معلوم نہیں لیکن اگر یہ مفتی عزیز کے بیس سال کی عمر سے زائد اپنے شاگرد کیساتھ اسکی مرضی کیخلاف ہے جیسا کہ شاگرد کے بیان اور جسمانی زبان یا باڈی لینگوئج سے لگتا ہے کہ مفتی کے پاس اختیار تھے جس کے بل بوتے پر وہ اپنے اس شاگرد کا جنسی استحصال کر رہا تھا وہاں وہ یقیناًمیل ریب اور جنسی جرم کے زمرے میں آتا ہے۔
پاکستان جیسے ملکوں کا سماج جہاں آفیشلی ہم جنس پرستی کے وجود رکھنے یا ہم جنس پرست ہونیکااعتراف تو کیا کریں گے بلکہ اس پر سزائے موت و عمر قید جیسی سزائیں تجویز و نافذ کرتے ہوں ( مگر سب چلتا بھی ہوجب تک کوئی پوچھتا نہیں بتاتا نہیں کی بنیاد پر)، اور” ٹین ایجرز ” سے جنسی فعل کرنے (جو کہ مہذب معاشروں میں سنگین ترین جرم مانا جاتا ہے) اور تیرہ سال کے بچوں بچیوں کی شادیاں اور جبری تبدیلی مذہب تک جائز ہوں وہاں جنسی جرائم بلکہ بچوں اور خواتین کیخلاف جنسی دہشت گری سے آنکھیں موندتے ہوئے سارا ملبہ عورتوں اور دیگر کمزور اقلیت ہم جنس پرستوں، گیز یا ہیجڑوں پر جا کر گرایا جاتا ہے۔
میں نے ایک بار نیویارک میں ایران کے وزیر اعظم احمدی نجاد سے انکے پبلک لیکچر کے دوران پوچھا تھا کہ انکے ملک میں ہم جنس پرستی وجود رکھتی ہے؟ تو انہوں نے کہا تھا “نہیں ایران ایک اسلامی انقلابی مملکت ہے وہاں نہیں ہوسکتی”۔ ظاہر ہے کہ جھوٹ تھا۔ پاکستانی حکمران اور حکام بھی تب تک یہی کہتے ہیں جب تک انہیں ڈونر قوموں سے ایڈز کے نام پر امدادی رقم نہ بٹورنی ہو۔ فینسی کاغذوں پر تو پاکستان میں ایڈز اور ہم جنس حقوق کی سرکاری غیر سرکاری تنظیموں نے غیر ملکی فنڈز ہم جنس پرست اور ٹرانس جینڈر یا خواجہ سرا کمیونٹیز کے نام پر شارک مچھلیوں کی طرح ہضم کیے ہوئے ہیں۔
اب ایک ایسا ملک جو مدرسوں تو کیا اسکولوں میں بھی جنسی تعلیم پڑھائے جانے کا مسلسل انکاری ہو اور گھروں پر والدین بچوں سے کوئی انکی بڑھتی بلوغت اور جنسیت پر کوئی بات نہ کرتے ہوں کہ بہت بچپنے کی عمر تک بچے سمجھتے ہوں کہ انہیں اور انکے بھائی بہنوں کو آسمان سے فرشتے انکی اماں کے تکیے کے نیچے رکھ گئے تھے وہاں ہم جنس پرستی یا کوئی بھی جنس پرستی اور چائلڈ ابیوز چاہے ریپ میں تمیز اور تخصیص نہ کرنا کوئی انہونی بات نہیں۔
اور پھر یہ بھی کوئی انہونی بات نہیں کہ زندگی کے باقی شعبوں کی طرح پاکستان میں اسلامی مدرسوں ہوں یا چاہےفوجی بیرکیں ہوں ، میں ہم جنس پرستی (برضا و باہمی خوشی) بدرجہ اُتم موجود ہے۔ مدرسوں میں ہم جنس پرستی کی بات تو ہر کوئی کر رہا ہے لیکن ملٹری میں ہم جنس پرستی کی بات کوئی نہیں کر رہا۔ ملٹری ہو کہ مدرسے یہاں تک کہ چڑیا گھروں میں بھی ایک ہی جنس کے جانوروں مین پایا جانیوالا عمل بتاتا ہے یہ جنسی فعل،یا کوئی بھی جنسی فعل “غیر فطری” نہیں ہوتا۔
کئی برس ہوئے کہ کراچی صدر میں مولانا نورانی والی مسجد کے پیش امام کے ہم جنس پرستی میں پکڑے جانے کی شکایتوں کے باوجود رکھا گیا تھا اور اسکی وجہ مسجد انتظامیہ یہ بتاتی تھی کہ انہیں کوئی اچھا پیش امام جب تک نہیں ملتا تو جماعت اسی پیش امام کے پیچھے نمازیں پڑ ھے۔
جماعت اسلامی سے تعلق رکھنے والے ایک مدرسے کے سینئر طالبعلم کی طرف سے مجھے لکھے میرے لڑکپن میں میرے نام ایسے رومانوی خطوط جو حافظ سعدی اور خیام کے شعروں سے مرقع ہوتے تھے نے آخر اس کے اور میرے درمیان “سلیمانی “مگر رومانوی تعلق پیدا کرلیا تھا۔ یہ سینئر طالب فلمی گانوں کی طرز پہ نعتیں بھی پڑھتا اور بھٹو کے اسلامی سوشلزم کیخلاف فتوے والا پمفلیٹ بھی بانٹتا جبکہ میں بچپن سے ہی لیفٹسٹ اور کچھ جیالا تھا۔ لیکن جنسی اور جذباتی تعلق بہت سیکیولر ہوتا ہے۔
سبق یاد کرتے جھولتے ہوئے ایک دوسرے کے اعضا سے کھیلنا بھی کوئی ایسی اچنبھے یا غیر معمولی بات نہیں بشرطیکہ کوئی پکڑا نہ جائے۔ بلکہ درون خانہ کچھ مولوی علما کے درمیان یہ بھی مباحثہ ہوتا رہتا ہے کہ “زنا” اور ہم جنس پرستی یا اسکے ہتک آمیز لفظ “لونڈی بازی” میں شرعی فرق ہے کہ نہیں۔ دیوبندی وہابی سلفی اور شیعہ شوقین مولویوں کی اپنی اپنی رائے ہے۔
کئی ہم جنس پرستی پر مبنی لطیفے ملاؤں اور مدرسوں پہ بنے ہوئے ہیں۔ شاعری اور ہزلیں بھی۔
ایک احمدی مسلمان منحرف نے احمدیوں کے قادیان کے بعد دوسرے معتبر شہر ربوہ اور اس میں ہونیوالی ہم جنس پرستی پر ایک کتاب لکھی ہے جسکا عنوان “شہر سدوم” رکھا ہے۔ مجھے بہت برس ہوئے کہ نیویارک میں مسلم گے لیز بین بائی سیکوئیل ٹرانسجینڈر تنظیم “ال فاتحہ” کی کانفرنس میں ایک شامی نزاد دانشور نے کہا تھا کہ پیغمبر لوط کی قوم کو سزا انکے ہم جنس پرست ہونے پر نہیں بلکہ مہمانوں سے غلط سلوک روا رکھنے پر ملی تھی۔
قندہار میں طالبان کے دو مسلح گروہوں میں ایک لڑکے پر لڑائی کئی دن تک چلتی رہی تھی۔
تو اسی طرح پاکستانی فوج میں بھی ہم جنس پرستی دنیا کے باقی ممالک کی طرح موجود ہونا معمول کی بات اور ایک طرح کا “سب کلچر”ہے۔ بس ‘نہ پوچھو نہ بتاؤ’ کی بنیاد پر۔ سندھ پر برطانوی قبضے کے فوراً بعد معروف جاسوس ایکسپلورر متجسس مصنف و محقق سر فرانسس رچرڈ برٹن کو کراچی میں انگریز فوجوں میں ہم جنس پرستی پر تحقیق کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی تھی۔ دوران تحقیق رچرڈ برٹن نے لڑکوں کا ایک چکلہ بھی دریافت کرلیا تھا جہاں برطانوی فوجی متواتر جاتے رہتے تھے۔ مگر رچرڈ برٹن کی ایسی رپورٹ کے بعد وہ اپنے بالا حکام کی طرف سے زیر عتاب آگیا تھا۔
پاکستان میں فوجی آمر جنرل ضیا کی آمریت کے شروع والے سالوں تک حیدرآباد میں کچھ ہوٹلوں پر زیر زمین لڑکوں کے چکلے قائم تھے جن کے گاہکوں کی ایک اچھی خاصی تعداد فوجیوں کی ہوا کرتی تھی۔ رنگروٹوں پر جنسی جبر ، اکثر استاد کیا کرتے ہیں اور کئی رنگروٹ استادوں کے ایسے جبر سے بھاگ کر بھگوڑے بھی بنے ہیں۔ بس جونیئر پر سینئر کا جنسی جبر معمول کی بات ہے۔ جونیئر افسر پر سینئر افسر جونیئر کیڈٹ پر سینئر یا انسٹرکٹر کا جنسی جبر۔
لیکن میں، یہاں مدرسے ہوں کہ ملٹری ان میں بخوشی و باہمی رضامندی کے ہم جنس پرستی کی بات کر رہا ہوں۔ کچھ عرصہ قبل کیڈٹ کالج پیٹارو کے پرنسپل نے کیڈٹس کے ایک جوڑےکے جنسی عمل میں مصروف پائے جانے پر ہاسٹلوں کے کمرے اندر سے بند نہ رکھنے کے احکامات دیے تھے۔
کچھ جاننے والے تو یہ بھی کہتے ہیں کہ کراچی میں1969میں جو پاکستان فضائیہ کا جوطیارہ گرا تھا جس میں ایک خوبصورت نوجوان پائلٹ کی “شہادت” ہوئی تھی اسکی وجہ بھی اسکے بنگالی انسٹرکٹر کی اس نوجوان نوخیز پائلٹ پرجنسی دست درازی تھی۔اسی طرح پاکستان کی تینوں مسلح افواج سے کئی اعلی ڈیکوریٹیڈ بڑے بڑے مقتدر نشانات عطا کردہ قومی ہیروز کی قطار میں معرکہ آراخوبصورت گیز یا ہم جنس پرست بھی شامل ہیں ۔
کیوں نہ ہوں۔بلکہ یہ بھی اب تک تحقیق طلب ہے کہ پاکستان کی سویلین اور ملٹری پاور میں جنسیت اور اس میں بھی ہم جنسیت کا کتنا عمل و دخل ہے؟ بس مت پوچھو مت بتاؤ۔
♠
One Comment