پائندخان خروٹی
زندگی کی پُرخار اور پُرخطر راہوں میں ہر اختتام پر ایک نیا آغاز پالینا ہی بصیرت اور دانشمندی ہے۔ عدم کو موجود ثابت کرنے کے باوجود بھی عدم کا باقی رہ جانا نظریہ ارتقاء کی حقانیت ہے۔ انسان بیرونی تضادات کو ہموار کرنے کیلئے اپنے اندر کے بھنور سے بھی لڑتا رہتا ہے۔ وہ اُجڑی ہوئی بستی کا مکین ہونے کے باوجود دنیابھر کے زیارکشوں کیلئے ظلم واستحصال سے پاک مساوات اور برابری پر مبنی ایک نیا خدمتگار خلقی نظام وقوع پذیر ہونے کی خوشخبری دیتا ہے۔
بہرحال اشتراکی دنیا کے اقدار اور پیمانے تو استحصالی دنیا سے نہ صرف الگ ہوتے ہیں بلکہ جے جے روسو کے سوشل کنٹریکٹ کے مرکز ومحور یعنی مفاد خلق پر بھی مشتمل ہوتے ہیں۔ وہ جبر و استحصال سے پاک انسانی سماج کے روشن مستقبل کو انسانی خون چوسنے اور زیارکشوں کی محنت چوری کرنے والے معیشت پر مسلط معاشی غنڈوں کو خلقی رنگ میں بدلنے سے مشروط کرتے ہیں جو جدلیاتی فلسفے کے بنیادی اصولوں کو پروان چڑھانے سے ہی ممکن ہوتا ہے۔
اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ علم و ادب کا سیاسی و معاشی نظریات سے گہری وابستگی پیدا کرنے کے بعد اہل فکر وقلم سماج کی ارتقاء کے اصل رخ کو متعین کرنے کے قابل بن سکتے ہیں ۔ واضح رہے کہ بدلتے ہوئے رحجانات کے حقیقی نباض بننے اور حال کے دُھندلے تصورات سے مستقبل کی واضح تصویر بنانے کا راز بھی جدلیاتی فلسفہ میں پنہاں ہے۔ جدلیات اور تاریخی مادیت ہمیں قدیم اور جدید کے درمیان رشتہ قائم رکھنے، “موڈ آف پروڈکشن” کے تناظر میں انسانی سماج کے مختلف ارتقائی مراحل کا ادراک کرنے اور روشن مستقبل کو تشکیل دینے میں ہمیں فکری رہنمائی فراہم کرتی ہے۔
ویسے مستقبل میں جھانکنا ہر کسی کی بس کی بات نہیں ہے۔ ماضی کو سمجھنے کیلئے نقل جبکہ حال اور مستقبل کا صحیح ادراک حاصل کرنے کیلئے عقل اور بصیرت کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔ ماضی کیلئے انسان دوسروں کے علم وتجربہ سے استفادہ کر سکتا ہے جبکہ مستقبل شناسی کیلئے معروض کا صحیح ادراک کر کے اپنی تجزیاتی قوت کو بروئے کار لانا پڑتاہے۔ گویا اپنے گردوپیش میں بدلتے ہوئے رحجانات کے نقطوں کو ملا کر سماج کی بڑی تصویر بنانے کی صلاحیت سے ہی مستقبل کا وہ نقشہ کھینچا جاسکتا ہے جو وقوع پذیر ہونے والا ہے۔
لہٰذا یہ حقیقت ہے کہ معروضی حالات کا ادراک حاصل کرنا، مستقبل کی جانکاری اور مستقبل کے تقاضوں سے ہم آہنگی ہونے کیلئے مستقبل کے نباضوں کی مدد و رہنمائی اشد ضروری ہوتا ہے۔ مارکس نے بجا فرمایا تھا کہ ترقی پسند معاشرہ اپنے حال پر ماضی مسلط کرنے کی بجائے حال کو ماضی پر غالب کر کے مستقبل کا لائحہ عمل بھی طے کرتا ہے۔ جدلیاتی فلسفہ کے وسیع تناظر میں اپنے مزل و منزل اور طریقہ و نتیجہ کا واضح تعین کیا کریں تاکہ دیہاتی کلچر سے شہری تہذیب تک کا ارتقائی سفر کی درست تفہیم حاصل ہونے کے ساتھ ساتھ مستقبل شناسی کا فلسفہ بھی آپ کے قابو میں رہے۔
♠
One Comment