کسی بھی ملکی، سیاسی، جنگی اور معاشی معاملات سے متعلق میڈیا کے کردار سے انکار نہیں کیا جا سکتا ہے۔ میڈیا کے متعلق یہی کہا جارہا ہے کہ ریاست کے چوتھے ستون کی مانند ہے۔ پوری دنیا میں رائے عامہ بنانے میں بھی میڈیا کا کردار موثر ہوتا ہے۔
افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا ٹی وی چینلز اور اخبارات کی سرخیوں کا زینت بنا ہوا ہے۔ امریکی افواج کی انخلا کے بعد پورے خطے میں تشویشناک صورتحال پیدا ہوا ہے۔ اس صورتحال کو امن اور مذاکرات سے حل کرنے کی بجائے جنگ کے مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں، جس سے افغانسان کے عوام کے ساتھ پورے خطے میں بے چینی پیدا ہوی ہے، اس بے چینی سے تو یقیناً طالبان کے حامی استفادہ حاصل کرینگے، جبکہ طالبان کے مخالف اور پر امن افغانستان کے حامیوں کو مضبوط قوتوں کے رو یوں سے ٹھیس پہنچ رہی ہے۔
موجودہ صورتحال میں افغانستان کا مسئلہ زیر بحث رہا ہے، ٹھیک ہے کرنٹ ایشو ہے لازمی بات ہے منظرعام پر تو ہوگا، مگر کیا واقعی افغانستان میں ایسا ہو رہا ہے جیسا ہمیں دکھایا جاتا ہے؟ اگر نہیں، تو اس جنگ میں وہ جھوٹ بولنے والے بھی مداخلت کرنے کے مترادف ہیں۔
طالبان کا موقف تو تقریباً سب چینلز نے نشر کیا ہے، لیکن افغان حکومت کا موقف کیا ہے؟ یہ ہمیں نہیں دکھایا جاتا ! شا ید ہی مجھے بھی اس تحریر کے لکھنے سے پہلے کچھ معلوم ہوا ہو۔
ملکی اور غیر ملکی میڈیا کی نشریات تو حیران کن ہیں۔ ان کو دیکھنے کے بعد ایسا لگتا ہے جیسے کابل پر طالبان جلد قبضہ کرنے والے ہیں، اور اپنا حکومت قائم کرنے میں کامیاب ہونگے! جو میرے خیال میں بہت مشکل ہے۔
افغانستان کا مسئلہ یقیناً پورے خطے کا مسئلہ ہے، دو دہایوں سے جاری اس جنگ میں لاکھوں بے گناہ انسانوں کی قیمتی جانیں ضائع ہو چکی ہیں۔ لیکن جنگ زدہ افغانستان اب بھی مضبوط اور ترقی پذیر ہے۔
طالبان اگر امن کے پیروکار ہیں تو کیا جنگ اور بدامنی سے امن آسکتا ہے؟ کیا سکول گرانے، سرکاری دفاتر کو املاک پہنچانے سے امن آسکتا ہے؟ کیا اپنے ہی افغان بھائیوں کو قتل کرنے سے امن آسکتا ہے؟ یہی وجہ ہے کہ ہر افغان اس وقت طالبان کے خلاف ہیں اور ان سے نہ صرف نفرت کرتے ہیں بلکہ اسلحے اٹھا کر لڑ بھی رہے ہیں۔
مجھے محمود خان اچکزئی کی طرف سے افغان طالبان کو دیا گیا بہترین مشورہ یاد آگیا، گزشتہ دنوں میں پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے چیرمین محمود خان اچکزئی نے بلوچستان کے ضلع موسیٰ خیل میں جلسے سے خطاب کرتے ہوے طالبان لیڈرشپ کو افغانستان میں جنگ بندی اور صلح کرانے کا مشورہ دیا، محمود خان اچکزئی نے طالبان کے سربراہ ملا فاضل اور ملا برادر کو مخاطب کرتے ہوے کہا “آپ لوگ افغان انتخابات میں حصہ لیں، جیسے پاکستان میں مولانا فضل الرحمان انتخابات لڑ رہے ہیں، اگر آپ لوگ انتخابات جیت گئے تو میں اپنی پارٹی کے تیس رہنماؤں کے ساتھ آپ کو مبارکباد کے لئے کابل تشریف لاؤں گا۔
افغان امن مسئلے کا حل صرف اور صرف افغان عوام ہی نکال سکتی ہے نہ کہ دوسرے لوگ۔
♠