ہمیں نہیں معلوم کون کون طالبان کے ساتھ ہے۔۔۔ عمران خان

پاکستان کے وزیراعظم عمران خان نے دعوی کیا ہے کہ افغانستان سے پاکستان آئے پناہ گزینوں میں سے بیشتر عناصر طالبان کی حمایت کرتے ہیں تاہم پاکستان کے پاس کوئی طریقہ نہیں جس سے وہ یہ پتہ لگا سکے کہ کون طالبان کا حامی ہے یا کون نہیں۔

یہ بات انھوں نے جمعرات کو اسلام آباد میں افغانستان سے آئے صحافی، افغان نوجوانوں کے نمائندے اور مختلف ماہرین سے بات کرتے ہوئے کی۔

جب ان سے حالیہ دنوں میں پاکستان واپس آنے والی طالبان جنگجوؤں کی لاشوں کے حوالے سے سوال کیا گیا تو عمران خان نے دعوی کیا کہ پاکستان میں 30 لاکھ کے قریب افغان پناہ گزین رہتے ہیں اور ’ان میں سے تقریباً سب پختون ہیں اور تمام یا زیادہ تر کی ہمدردیاں طالبان کے ساتھ ہیں‘۔

انھوں نے پوچھا کہ پاکستان کیسے ان سب کو چیک کرے کہ کون افغانستان میں لڑنے جا رہا ہے اور کون نہیں جا رہا جب 25 سے 30 ہزار افغان روزانہ افغانستان جاتے ہیں اور واپس آتے ہیں‘۔

ان کے مطابق پاکستان بار بار کہتا رہا ہے کہ تمام افغان پناہ گزین اگر واپس افغانستان چلے جاتے ہیں تو پھر پاکستان کو ذمہ دار ٹھرایا جا سکتا ہے لیکن جب 30 لاکھ افغان پاکستان میں مقیم ہوں تو کوئی کیسے کہہ سکتا ہے کہ کچھ سو لوگ وہاں گئے اور ان کی لاشیں واپس آئی ہیں، اور پاکستان کو کیسے ذمہ دار ٹھرایا جا سکتا ہے۔

ان کے مطابق پاکستان میں ایسے پناہ گزین کیمپ ہیں جہاں ایک لاکھ تک یا پچاس ہزار تک پناہ گزین بھی رہتے ہیں تو ان کیمپوں میں جا کر کیسے معلوم کیا جا سکتا ہے کہ کون طالبان کا حامی ہے اور کون نہیں۔

افغانستان کی جانب سے اسلام آباد پر کی جانے والی تنقید کا جواب دیتے ہوئے انھوں نے مزید کہا: ‘افغانستان میں طالبان کیا کر رہے ہیں یا کیا نہیں کر رہے، اس سے ہمارا کوئی تعلق نہیں ہے۔ آپ طالبان سے بات کریں، ہم طالبان کے کوئی ترجمان نہیں ہیں۔

افغان وفد سے بات چیت کرتے ہوئے عمران خان کا کہنا تھا کہ افغانستان کے مسئلے کے حل کے لیے افغان حکومت اور طالبان کو بات چیت کرنی چاہیے۔تاہم امریکہ کے کردار پر بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ جب امریکہ اور افغان بااختیار تھے تو اس وقت طالبان سے مذاکرات کا موقع تھا۔اب امریکہ کے بیشتر فوجی جا چکے ہیں اور طالبان کئی علاقوں میں آ چکے ہیں تو ایسے میں وہ کیسے سوچ سکتے ہیں کہ اب طالبان کے ساتھ سیاسی حل بہتر انداز میں نکالا جا سکتا ہے؟‘

عمران خان نے مختلف سوالات کے جواب دیتے ہوئے کہا کہ بد قسمتی سے افغانستان میں یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی کا کنٹرول فوجی اسٹیبلشمنٹ کے پاس ہے حالانکہ یہ سراسر غلط ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ’اگر افغانستان میں خانہ جنگی جاری رہتی ہے تو یہ یقینی طور پر پاکستان تک پھیل سکتی ہے‘۔ان کے مطابق پاکستان کی معاشی پالیسی کا بڑا انحصار افغانستان میں امن کے قیام پر ہے اور بدامنی سے نہ صرف افغانستان بلکہ پاکستان کے لوگ بھی متاثر ہوں گے۔

عمران خان کے بقول اگر افغانستان میں امن ہوگا تو پاکستان کو یہ فائدہ ہے کہ وہ وسطی ایشیا سے منسلک ہو جائے گا کیونکہ پشاور سے وسطی ایشیا تک ریلوے لائن کا منصوبہ تیار پڑا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ’میرا یہ موقف ہے کہ افغان ایک خود مختار قوم ہے اور افغانستان کو باہر سے کنٹرول نہیں کیا جا سکتا۔ اس لیے افغانستان میں افغان لوگوں کی اپنی حکومت ہے۔‘

انھوں نے تسلیم کیا کہ 1990 کی دہائی میں پاکستان سٹریٹیجک بنیادوں پرافغانستان میں انڈین دخل اندازی کے خلاف تھا تاہم اب پہلے والی صورتحال نہیں ہے اور اب پاکستان کی افغانستان میں کوئی پسند یا ناپسند نہیں ہے۔

bbc.com/urdu

Comments are closed.