شہریار علی خان
اردو میڈیا پی پی پی اور سندھی کے کیوں جی جان سے مخالفت کرتا ہے ۔
یاد رہے کہ قیام پاکستان سے قبل سندھ کی اپنی حکومت تھی۔ بینک تھے ۔تعلیمی ادارے تھے ۔تجارتی ادارے تھے۔ شپنگ کمپنیاں تھیں ۔ انشورنس کمپنیاں تھیں ۔ ہر قسم کا کاروبار سندھی زبان میں ہورہا تھا ۔ سندھ کے اپنے ایئرپورٹ تھے ۔ بین الاقوامی فضائی سفر ہو رہا تھا ۔ بحری جہاز ران کمپنیاں تھیں۔ بین الاقوامی بحری تجارت ہو رہی تھی سب کچھ سندھی زبان میں ہو رہا تھا۔
پھر پاکستان بن گیا۔
سندھ کی آبادی کے دس فیصد کے برابر بیرونی لوگ آئے۔انھوں نے پناہ مانگی اور پھر قرارپایا کہ تمام سندھی تعلیم ختم ۔
وسطی ہند کی ایک زبان اردو جو سندھ میں نہ بولی جاتی تھی ۔ نہ پڑھی جاتی تھی ۔ اس زبان میں میٹرک پاس کو سندھ کے پی ایچ ڈی پر برتری دی گئی ۔ وسطی ہند کی زبان کو تعلیم کہا گیا اور سندھی زبان کو جہالت منوایا گیا ۔ ایسا نہیں ہوا کہ اردو زبان والوں نے نئے تعلیمی ادارے قائم کیے۔
انہوں نے 1971 تک کوئی ایک نیا تعلیمی ادارہ قائم نہیں کیا ۔ بلکہ سندھی زبان بولنے والوں کے تعلیمی اداروں پر قبضہ کر کے اردو تعلیم شروع کردی۔
اردو میں تعلیم یافتہ کے لیے سندھی زبان سے کہیں زیادہ نوکریوں کا کوٹہ رکھ دیا۔تعلیم کا دوسرا نام اردو بولنا رکھ دیا گیا۔1972 تک باشعور سندھی یہ سب کچھ برداشت کرتے رہے۔ جب زبان کے اسی فساد پر بنگالیوں نے علیحدگی حاصل کرلی تو سندھیوں نے سندھی زبان میں تعلیم کا حق چھین لیا ۔
آج بھی اور اس وقت بھی سندھی زبان میں تعلیم کی کوالٹی بہتر تھی اور سندھی زبان میں تعلیم حاصل کرنے والوں کی بین الاقوامی سطح پر مانگ زیادہ تھی ۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد پھر اردو بولنے والے جب پچھڑ گئے تو انہوں نے پنجاب اور فوج کی حمایت کر کے سندھی بولنے والوں پر غلبہ حاصل کرنے کی جدوجہد شروع کردی۔
اب ہم ابتدائی مقدمہ پر آتے ہیں۔
کراچی میں میں اردو بولنے والوں نے کتنی یونیورسٹیاں بنائیں ۔کتنے تعلیمی ادارے بنائے کتنے ہسپتال بنائے ۔
یا اسی سوال کو دوسری طرف دیکھتے ہیں ایوب خان ۔ ضیاع الحق پرویز مشرف اور ایم کیو ایم نے کون کون سے میگا پروجیکٹ کراچی شہر میں کیے۔ امید ہے آپ جواب دے کر مطمئن کریں گے اس کے بعد میں بتاؤں گا کہ سندھی بولنے والوں نے کراچی کو کیا کیا دیا ہے۔
کراچی میں ایک بھی یونیورسٹی 1971 تک نئی قائم نہیں کی گئی تھی ۔ قیام پاکستان سے قبل کی سندھ یونیورسٹی کا نام بدل کر اسے کراچی یونیورسٹی منوایا گیا۔ اس کے اثاثوں پر قبضہ کرکے اردو ذریعہ تعلیم قرار دیا گیا ۔
کراچی میں جس قدر بھی تعلیمی ادارے قائم ہوئے وہ ذوالفقار علی بھٹو کے یا پی پی پی کے کسی بھی دور میں قائم ہوئے ۔ ہسپتال۔ انفراسٹرکچر ۔ کچھ بھی ۔حب ڈیم سے پانی کی سپلائی ہو یا کینپ سے بجلی ۔ سب پروجیکٹ پی پی پی کے ہیں۔ قیام پاکستان سے قبل کی کراچی سرکلر ریلوے پر حکومت پاکستان نے قبضہ کیا اور ضیاء الحق کے دور میں اسے بند کر دیا گیا ۔بجلی کے نظام پر قبضہ کیا گیا اور اسے فروخت کیا گیا پرویز مشرف نے اسے بیچ کر پیسہ کمایا ۔
اب صورتحال یہ ہے کہ سندھ اپنی ضرورت سے زیادہ بجلی پیدا کرتا ہے لیکن کراچی شہر کو نہیں دے سکتا کیونکہ کراچی شہر سے زیادہ وفاقی حکومت کو فیصل آباد اور گوجرانوالہ کی صنعت عزیز ہے ۔آپ تصور کریں کہ نواز شریف اور عمران خان کے دور میں سندھ کی گیس بجلی اور پٹرول سب کچھ چھین کر پنجاب کا پیٹ بھرا جاتا ہے ۔ اور کراچی کے رہنے والے شہری کہتے ہیں ہیں کہ کراچی شہر کو پیپلز پارٹی نے برباد کر دیا ہے۔
♥