پاکستان نے ’افغان امن کانفرنس‘ منسوخ کردی

اس کانفرنس کو ابتدا میں جولائی کے وسط میں منعقد کرنے کا پروگرام بنایا گیا تھا۔ تاہم اسے پہلے ملتوی اور اب افغان رہنماوں کے مبینہ پاکستان مخالف رویے کے سبب انتہائی خاموشی اور غیر محسوس طریقے سے منسوخ کر دیا گیا ہے۔

پاکستانی میڈیا کی رپورٹوں کے مطابق افغان حکومت کے رویے سے مایوس ہو کر پاکستان نے مجوزہ افغان امن کانفرنس‘ منسوخ کی ہے۔ اس کانفرنس کا مقصد جنگ زدہ ملک میں امن  کے قیام  کی کوشش تھی اور اس میں افغانستان کی اعلی سیاسی قیادت نے بھی شرکت کرنا تھی۔ تاہم پاکستان کے ایک اعلی عہدیدار نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ اس منصوبے کو اب ترک کر دیا گیا ہے۔

یہ امن کانفرنس پاکستانی دارالحکومت اسلام آباد میں 17 سے 19 جولائی کے درمیان ہونا تھی۔ گزشتہ ماہ ازبکستان میں افغان صدر اشرف غنی نے وزیر اعظم عمران خان کے ساتھ ملاقات کے دوران مجوزہ کانفرنس کو ملتوی کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ اس کے بعد پاکستانی حکام نے اعلان کیا تھا کہ چونکہ افغان رہنما طالبان کے ساتھ مذاکرات کے لیے دوحہ میں ہوں گے لہذا کانفرنس کو ملتوی کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

پاکستانی عہدیدار کا کہنا ہے کہ افغان رہنما پاکستانی حکام کے ساتھ انفرادی ملاقاتوں میں مختلف طرح کے مطالبات کرتے رہے ہیں اس لیے سوچا یہ گیا تھا کہ مجوزہ کانفرنس پاکستان کے حوالے سے افغان رہنماوں کے توقعات اور مطالبات معلوم کرنے میں معاون ثابت ہوگی۔

دریں اثنا ذرائع کا کہنا ہے کہ حکومت پاکستان اور وزرائے خارجہ کی سطح پر افغانستان پر ایک علاقائی کانفرنس منعقد کرنے پر غور کر رہی ہے۔

کانفرنس کی منسوخی کی وجہ کیا باہمی تلخی ہے؟

حالیہ ہفتوں کے دوران افغان اور پاکستانی عہدیداروں نے ایک دوسرے کے خلاف جو بیانات دیے ہیں، ان سے دونوں کے درمیان تلخی میں مزید اضافہ ہوا ہے۔ افغانستان میں تشدد میں اضافے کے ساتھ ہی اسلام آباد اور کابل کے مابین تعلقات میں کشیدگی میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔

وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے جولائی کے اواخر میں اسلام آباد میں پاک افغان یوتھ فورم کے ایک وفد سے بات چیت کرتے ہوئے افغانستان کے بحران کے لیے پاکستان کو ذمہ دار ٹھہرانے کے حوالے سے افغان رہنماؤں کے بیانات کو افسوس ناک قرار دیا تھا۔

انہوں نے کہا تھا، ”پاکستان نے پہلے امریکا اور پھر افغان حکومت کے ساتھ مذاکرات کے لیے طالبان کو قائل کرنے کے لیے سخت جدوجہد کی۔ خطے کا کوئی دوسرا ملک پاکستان کی کوششوں کی برابری کا دعویٰ نہیں کر سکتا‘‘۔

اس سے قبل افغان رہنماوں نے الزام لگایا تھا کہ پاکستانی حکومت اور آرمی دہشت گردوں کی مدد کر رہی ہے اور طالبان کو فضائی امداد بھی فراہم کررہی ہے۔

افغان صدر اشرف غنی نے بھی پاکستان پر طالبان کو مدد کرنے کا الزام لگایا تھا اور کہا تھا کہ دس ہزار جہادی جنگجو افغانستان میں داخل ہو گئے ہیں۔ نائب صدر امر اللہ صالح اور قومی سلامتی کے مشیر حمد اللہ محب نے بھی پاکستان پر دہشت گرد گروپوں کی مدد کرنے کا الزام لگایا تھا۔

پاکستان کے قومی سلامتی کے مشیر ڈاکٹر معید یوسف نے امراللہ صالح کے اس بیان کے جواب میں کہا تھا کہ افغانستان کے اعلیٰ عہدیداروں کے احمقانہ بیانات‘ سے خود افغانستان کی بے عزتی ہو رہی ہے اور یہ عہدیدار جان بوجھ کر پاکستان کے ساتھ دو طرفہ تعلقات کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔

معید یوسف نے ایک ٹوئٹ میں کہا تھا، ”چند بگاڑ پیدا کرنے والے عناصر جو بد قسمتی سے ہمارے افغان بہن بھائیوں پر بطور اعلیٰ عہدیدار کے مسلط ہیں، کدہیں جس کا مقصد اپنی ناکامیوں سے توجہ ہٹانا ہے‘‘۔

اس سے قبل اسلام آباد میں افغان سفیر کی بیٹی کے مبینہ اغوا کے واقعے کے بعد افغانستان نے پاکستان سے اپنے سفیر اور سفارتی عملے کو واپس بلا لیا تھا۔مبصرین کا خیال ہے کہ پاک افغان تعلقات آنے والے دنوں میں مزید نا خوشگوار ہوں گے اور جب تک افغانستان میں جنگ چلتی رہے گی ان تعلقات میں بہتری کی کوئی امید نہیں ہے۔

پشاور سے تعلق رکھنے والے تجزیہ نگار مختار باچا نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان میں پاکستان مخالف جذبات بہت زیادہ بڑھ رہے ہیں۔ اسلام آباد کو افغانستان کی شکایات ہمدردی سے سننی چاہیے اور الزامات کا معقول جواب دینا چاہیے۔

مختار باچا نے مزید کہا، مثال کے طور پر اگر کابل کا یہ الزام ہے کہ دس ہزار دہشت گردوں کو پاکستان نے تربیت دے کر افغانستان بھیجا ہے۔ اگر حقائق ایسے نہیں ہیں، تو پاکستان کو کوئی ایسا جواب دینا چاہیے جو معقول ہو۔ بالکل اسی طرح افغان سفیر کی بیٹی کے اغوا کے حوالے سے بھی معقول جواب دیا جانا چاہیے۔ بعض اوقات اسلام آباد کی طرف سے جو جواب آتا ہے وہ جلتی پہ تیل کا کام کر دیتا ہے اور تعلقات کو بہتر کرنے کے بجائے مزید بگاڑ دیتا ہے۔

dw.com/urdu

Comments are closed.