پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد امریکہ کو الزام دے رہی ہے کہ وہ افغانستان سے کیوں نکلا۔
ایک اہم بات جو یاد رکھنی چاہیے وہ یہ کہ امریکہ افغانستان میں مستقل قیام کے لیے نہیں آیاتھا اور نہ اس کا افغانستان کے وسائل پر قبضہ کرنے کا کوئی پروگرام تھا۔ امریکہ کا مفاد اتنا تھا کہ القاعدہ یا کوئی اور دہشت گرد تنظیمیں امریکی و یورپی مفادات پر حملہ نہ کریں۔ امریکہ نے ایک دن جانا ہی جاناتھا۔ کوئی بھی جنگ مستقل نہیں لڑی جا سکتی۔ امریکہ ویت نام سے اس لیے نکلا تھا کہ جنگ لمبی ہوتی جارہی تھی اور بے معنی ہوچکی تھی۔ روس بھی افغانستان سے اس لیے نکلا تھا کہ وہ تھک چکا تھا۔ اسی طرح امریکہ عراق سے بھی نکلا تھا ۔ اب بھی امریکہ نکل گیا ہے۔
امریکہ نے پچھلے بیس سال میں افغان آرمی کو اسلحہ دیا، تربیت دی انفراسٹرکچر قائم کیا اب اگر افغان خود ہی لڑنے کے لیے تیار نہ ہوں تو دوسروں کو الزام نہیں دینا چاہیے۔ مگر ہماری یا اس خطے کی بدقسمتی یہ ہے کہ اپنی ناکامیوں کا ملبہ ہم غیر ملکی طاقتوں پر ڈال کر بری الذمہ ہوجاتے ہیں۔
طالبان ایک بار پھر افغانستان پر قبضہ جما چکے ہیں۔ کابل کا محاصرہ ہوچکا ہے۔ اور بغیر کسی مزاحمت کے طالبان کے قبضے میں چلا جائے گا۔ اب اگلا سوال یہ ہے کہ طالبان کا طرز حکومت کیاہوگا؟ پچھلی دفعہ جب روس اور امریکہ افغانستان سے نکلے تھے تو ان مجاہدین اسلام یا طالبان نے آپس میں اقتدار کے لیے ایک دوسرے کے گلے ہی کاٹے تھے۔اب بھی طالبان کے کئی گروپ ہیں اور جذبہ جہاد کے تحت سب اکٹھے ہوچکے ہیں اس میں القاعدہ اور داعش بھی شامل ہے۔ پاکستانی طالبان اور پاکستانی مدرسوں کے طالب علم بھی افغانستان کے مختلف حصوں میں بیٹھ گئے ہیں۔امریکہ میں ایک افغان صحافی کے مطابق سندھ کے مدرسوں کے طالب علم بھی افغانستان پہنچ گئے ہیں۔
اچھا اب طالبان کی مرکزی قیادت ابھی تک کوئی نہیں ہے۔ سب اپنی اپنی جگہ مضبوط گروپ ہیں ۔عبوری حکومت بھی بن جائے گی لیکن شراکت اقتدار کے معاہدہ پر اختلافات رہیں گے ۔ کیا وہ شریعت نافذ کریں گے؟ اگر تواسلامی امارات بنتی ہے تو وہ دنیا کی حمایت سے محروم رہے گی۔ دنیا کی حمایت سے محروم رہنے کا مطلب یہ ہے کہ افغانستان کی حکومت اور معیشت چلانے کے لیے پیسہ کہاں سے آئے گا؟ ہیروئن کی کمائی یا بھتہ خوری سے چھوٹے چھوٹے گروپ تو چل سکتے ہیں لیکن حکومت نہیں چل سکتی۔ماضی کے برعکس اب کوئی بھی عرب ملک طالبان کی مالی مدد کو تیار نہیں۔
روس اور چین بھی ایک حد سے زیادہ مدد نہیں کرسکتے۔ ان کے اپنے مفادات ہیں۔جب تک امریکی یا نیٹو افواج افغانستان میں رہی ہیں انھیں (طالبان) روس اور چین یا ایران کی طرف سے مدد اس لیے ملی تھی کہ امریکہ کو زچ کیاجائے۔ اب اس کے جانے کے بعد ان کی کیا حکمت عملی ہوگی وہ بھی اقوام متحدہ کی منظور ی سے مشروط ہوگی۔
طالبان کی فتح سے پوری دنیا کے مذہبی انتہا پسند مسلمان گروہوں کو تقویت ملی ہے۔ پاکستان کے اسلامی دانشور بھی نچلے نہیں بیٹھ رہے ۔یاد رہے کہ اسلامی افواج کے لیے زمانہ امن کوئی معنی نہیں رکھتا۔ جب ایک علاقہ فتح ہوتا ہے تو پھر مال غنیمت اکٹھا کرکے اگلا علاقہ فتح کرنے کی منصوبہ بندی شروع ہوجاتی ہے۔ اسلامی افواج کے لیے تعلیم، فلسفہ، سائنس و ٹیکنالوجی یا کوئی صنعت قائم کرنا اپنے آپ کو بزدل بنانے کے مترادف ہوتا ہے۔
شعیب عادل