طالبان کی جانب سے افغانستان پر قبضہ کے متعلق بہت سی سازشی تھیوریاں جنم لے چکی ہیں۔ ان کے مطابق اب امریکہ طالبان کی پشت پناہی کررہا ہے تاکہ چین کو سبق سکھایا جائے۔ کچھ تھیوریوں کے مطابق سب کچھ دوحہ معاہدہ کے مطابق ہو رہا ہے۔
امریکہ افغانستان سے یک دم نہیں نکلا۔ پچھلے کچھ سالوں سے امریکی عوام حکومت پر دباؤ ڈال رہی تھی کہ ایسی جنگ کیوں لڑی جارہی ہے جس کا کوئی نتیجہ نہیں نکل رہا۔ سنہ 2012 میں امریکی صدر اوبامہ نے اپنی دوسری مدت کی انتخابی مہم میں عوام سے افغانستان سے فوجیں واپس بلانے کا وعدہ کیا تھا لیکن حالات نے اجازت نہیں دی تھی۔کیونکہ کچھ دوسری طاقتیں روس اور چین حتیٰ کہ عرب ممالک اور پاکستان بھی امریکہ کو افغانستان میں مصروف رکھنے کے لیے طالبان کی امداد کرتی رہی ہیں۔
پھر صدر ٹرمپ آئے انھوں نے بھی یہی کہا تھا کہ ہم دوسروں کی جنگ کیوں لڑیں۔ اگر القاعدہ اور داعش کمزور ہوگئیں ہیں تو ہمیں اب واپس آنا چاہیے ۔ صدر ٹرمپ کی کوششوں سے شہزاد محمد بن سلمان نے عرب ممالک، اپنے شہزادوں اور امیر شہریوں کو ساتھ ملا کر طالبان ، القاعدہ اور داعش کی امداد بند کردی تھی۔ٹرمپ نےپاکستان کی امداد بھی بند کی ۔
طالبان سے مذاکرات کی ابتدا صدر ٹرمپ نے کی تھی جو سال بھر تک چلے اور صدر ٹرمپ کے اصرار پر دوحہ میں جیسا تیسا کرکے معاہدہ کیا گیا۔ اور صدر ٹرمپ نے فورا ہی افغانستان سے فوجیں نکالنے کا اعلان کر دیا تھا کیونکہ وہ الیکشن مہم میں اپنے عوام سے یہ وعدہ کر چکے تھے ۔اگر صدر ٹرمپ الیکشن جیت جاتے تو فوجوں کا انخلا فروری 2021 میں مکمل ہوجانا تھا۔
چونکہ صدر ٹرمپ ہار گئے لہذا نئی حکومت نے پہلے اس پالیسی پر نظر ثانی کی اور تمام ڈیموکریٹس اور ریپبلکنز کا اصرار تھا کہ اب وقت آگیا ہے کہ افغانستان سے نکل جایا جائے ۔جس پر صدر بائیڈن نے فوجیں نکالنے کا حکم دیا تھا۔اسی طرح یورپی عوام کا بھی اپنے اپنے ملکوں پر دباؤ بڑھ رہا تھا کہ وہ افغانستان سے اب نکلیں ۔
طالبان نے دوحہ معاہدے میں جو وعدے کیے اگر اس نے پورے نہیں کیے تو امریکہ یا یورپ کچھ نہیں کرسکتا۔ امریکہ نے افغانستان کا انفراسٹرکچر ڈویلپ کیا، ائیر فورس کی تربیت کی اب اگر انہیں لڑنے میں دلچسپی نہیں تو امریکہ یا یورپ کیا کرے؟
اس جنگ میں چین، روس اور ایران طالبان کی مدد کرتے رہے ہیں۔ لیکن یہ ابھی بھی کھل کر سامنے نہیں آرہے۔ جس طریقے سے امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک نے بیس سال میں افغانستان کو ڈویلپ کرنے کی کوشش کی ہے اور جمہوریت قائم کرنے کی کوشش کی ہے اور افغان عوام کو اپنے نمائندے منتخب کرنے کی کوشش کی ہے۔۔۔ کیا چین، روس ایسا کرسکتے ہیں؟۔
بالکل بھی نہیں ۔ یہ تو جمہوریت کے ویسے ہی خلاف ہیں۔ طالبان کی مدد سے جمہوری عمل کو سبوتارژ کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔ لیکن کوئی بھی چین ، روس اور ایران کو لعن طعن کرنے کو تیار نہیں۔ان ملکوں کا مفاد تو صرف اتنا ہے کہ افغانستان سے کیا حاصل ہوسکتا ہے ؟ جمہوریت، انسانی حقوق ، تعلیم وصحت ، یا صنعت کو ڈویلپ کرنا یا کسی ملک کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنا روس اور چین کا مینڈیٹ ہے ہی نہیں۔
جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے تو پاک فوج کو امریکہ نے فارغ کردیا ہے ، یہ صرف پاکستانی عوام کے سامنے بڑھکیں مار سکتے ہیں۔۔ ان میں تو اتنی طاقت نہیں کہ پاکستانی طالبان کو سرحد پار جانے سے روکیں اور جب روکنے کی کوشش کرتے ہیں تو ان پر خود حملے ہوتے ہیں کیونکہ ہماری آدھی فوج خود طالبان بن چکی ہے اور افغانستان میں طالبان کے شانہ بشانہ لڑ رہی ہے۔
اس وقت طالبان کے پاس افغان فوج سے حاصل کیے ہوئے ہتھیار اور اسلحہ ہے ۔ جو صرف چند ماہ تک ساتھ دے گا۔تیل اور ایمونیشن کے لیے پیسے چاہییں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ طالبان کی حکومت کیا حکمت عملی اختیار کرتی ہے۔
شعیب عادل