مترجم: عابد محمود
آزادی کے وقت تک، ہسپانوی، پرتگیزی، فرانسیسی، ولندیزی اور بلجئین رفقاء (نوآبادیات) کے برعکس، برطانوی ہند، اور بہت سی دوسری برطانوی نوآبادیات میں الیکشن، (سیاسی) جماعتیں، ایک کم یا زیادہ آزاد پریس، اور قانون کی حکمرانی موجود تھی ۔ جمہوری عمل چاہے آہستہ رو، کینہ پرور اور بتدریج تھا، لیکن یہ کسی بھی اور جگہ کی نسبت سابقہ برطانوی نوآبادیات میں زیادہ کامیاب تھا۔ ہندوستانی قوم پرستی کی جدوجہد اور مختلف مراحل میں اس کا ارتقاء : قانونی حقوق کے متلاشی مہذب لبرلز، سوراج کے لیے غل غپاڑہ کرتے ‘انتہا پسند‘، اہنسائی جدوجہد کی وکالت کرتے گاندھی اور ان کے پیروکار، کانگریس، مسلم لیگ اور دوسری پارٹیاں، محدود حق انتخاب کے ساتھ ہی سہی لیکن ووٹوں کے لیے ایک دوسرے کے بالمقابل تھیں: قبل ازآزادی کے یہ تجربات، جمہوریت کے لیے ایک طرح کے سماج سازی کے عمل میں معاون اور ملک کی آزادی کے سفر کو آسان بنانے میں مددگار ثابت ہوئے۔
یہ بات قابل غور ہے کہ جب ہندوستانی قوم پرست، اپنی آزادی کی جدوجہد میں فتح یاب ہو گئے، اور آزاد ہند کا دستور لکھنے بیٹھے، تو انہوں نے سیاسی نظام مکمل طور پر برطانوی پارلیمانی جمہوریت کی بنیاد پر تخلیق کیا۔ کیا یہ محض اس لیے تھا کہ کہ انہوں نے اس کا مشاہدہ دور سے کیا تھا اور اس تک ان کی رسائی ممنوع تھی، لہذا وہ ہندوستان میں ویسٹ منسٹر کا چربہ چاہتے تھے، یا پھر شاید برطانویوں نے طاقت کی مثال کے ذریعے، ہندوستانیوں کو واقعی قائل کر لیا تھا کہ ان کا نظام قابل رشک ہے؟
یہاں ایک جملہ معترضہ ہے: ذاتی طور پر، میرے لیے یہ بعید از قیاس ہے کہ برطانوی نظام ہندوستان کے لیے مناسب تھا۔ ہم نے جو پارلیمانی جمہوریت اختیار کی اس میں انتظامیہ بنانے کے لیے مقننہ چننے کی برطانوی گمراہی شامل تھی: اس نے قانون سازوں کی ایسی نرالی نسل پیدا کی جو زیادہ تر قانون سازی کے لیے نا اہل تھی، جو محض انتظامیہ کے اختیارات کو قابو (پر اثر انداز ہونے کے لیے) میں رکھنے کے لیے الیکشن چاہتے تھے۔ اس سے ایسی حکومتیں پیدا ہوئیں جو پالیسی اور کارکردگی کی بجائے سیاست پر توجہ مرکوز کرنے پر مجبور تھیں۔ اس نے رائے دہندگان کی ووٹنگ ترجیحات مسخ کر دیں جو یہ تو جانتے تھے کہ کون سا فرد انہیں چاہیے لیکن کون سی پالیسیاں چاہئیں یہ (جاننا) ضروری نہیں۔ اس سے ایسی پارٹیوں کی افزائش ہوئی جو تصورات کے مربوط نظام کے وسیلے کی بجائے انفرادی مفادات کے باعث وفاداریاں تبدیل کرتیں۔ اس نے حکومتوں کو مجبور کیا کہ وہ حکمرانی پر کم اور اپنی حکومت پکی کرنے پر زیادہ توجہ مرکوز کریں، اور اس نے انہیں مجبور کیا کہ وہ اپنی اتحادی جماعتوں کے سب سے کم تر مشترکہ نامزد کاروں کا بھی خیال رکھیں۔ یہ وقت ہے تبدیلی کا۔
تکثیری جمہوریت ہندوستان کی سب سے بڑی طاقت ہے، لیکن اس کے موجودہ طرزِ عمل کا ماخذ ہماری بنیادی کمزوریوں میں ہے۔ ہندوستان کے بہت سے معاملات ایسے سیاسی بندوبست کا تقاضا کرتے ہیں جو فیصلہ کن اقدامات کی اجازت دے، جبکہ ہمارا تذبذب اور صراط مستقیم سے انحراف روز بروز بڑھتا جا رہا ہے۔ ہمیں ایسا نظام حکومت چاہیے جس میں قائدین حکومت میں رہنے کی بجائے حکمرانی پر توجہ مرکوز کریں۔ پارلیمانی نظام جتنی بہتری کر سکتا تھا اس سے زیادہ عرصہ زندہ رہ چکا؛ یہ ابتداء سے ہی ہندوستانی حالات کے لیے مناسب نہیں تھا اور بنیادی طور پر ہماری بہت ساری حقیقی سیاسی برائیوں کے لیے یہی ذمہ دار تھا۔ یہی وجہ ہے کہ میں نے بار بار ہندوستان کے لیے صدارتی نظام حکومت کی وکالت کی ہے، نہ صرف نئی دہلی میں وفاقی حکومت کے لیے، بلکہ گاؤں، شہروں، ریاستوں اور مرکز میں ایک چیف ایگزیکٹو کے براہ راست انتخاب کا نظام، جو مقررہ میعاد کے لیے منتخب ہوں اور مققنہ کی ترنگ اور میونسپل کونسلوں یا دیہی پنچایت کی تبدیل ہونے والی اکثریت کو جواب دہ ہونے کی بجائے، ہر پانچ سال کے لیے ووٹرز کو جواب دہ ہوں۔
پارلیمانی نظام برطانیہ میں اختراع کیا گیا تھا۔ ایک چھوٹے جزیرے کی قوم کے ساتھ، ابتداء میں ایک ایم پی کے لیے چند ہزار ووٹروں کی رائے دہندگی اور حتیٰ کہ آج بھی ایک حلقہ انتخاب کے لیے ایک لاکھ سے کم لوگ ۔۔جہاں بہت سے ایسے حالات پیدا ہو چکے تھے جو کم از کم ہندوستان میں موجود نہیں تھے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ واضح طور پر متعین سیاسی جماعتیں ہوں، ہر ایک کے پاس پالیسیوں اور ترجیحات کا ایسا مربوط نظام ہو جو ایک کو دوسری سے ممیز کر سکے، جبکہ ہندوستان میں ایک جماعت اکثر اوقات آسائش کا ایک لیبل ہوتا ہے، جسے سیاست دان اتنی تیزی سے اختیار اور ترک کرتے ہیں جتنی تیزی سے بالی وڈ کے اداکار لباس تبدیل کرتے ہیں۔
اہم ترین جماعتیں، چاہے قومی ہوں یا دوسری، اپنی آراء بارے غیر یقینی الجھاؤ کا شکار ہوتی ہیں: ہر جماعت کی ‘آئیڈیالوجی‘ کم یا زیادہ درجہ پر کانگریس کے نہروین سوشلزم سے اخذ کردہ، معتدل پوپلزم کا ایک یا دوسرا نمونہ ہے۔ لیکن ہمارے اوپر یہ نظام مسلط کرنے کے لیے ہم برطانویوں کو الزام نہیں دے سکتے، اگرچہ یہ ان کی ‘پارلیمنٹس کی ماں‘ ہی تھی جس کی ہمسری ہمارے اجداد نے کرنا چاہی۔ پہلی بات یہ کہ، برطانویوں کا ہندوستان میں جمہوریت کے نفاذ کا کوئی ارادہ نہیں تھا؛ دوسری یہ کہ، ہندوستانیوں نے قانون ساز اسمبلی میں آزادانہ طور پر پارلیمانی نظام کا انتخاب خود کیا۔
دو صدیاں قبل کے امریکی انقلابیوں کی طرح، ہندوستانی قوم پرست ‘انگریزوں کے حقوق‘ کے لیے لڑے، جسے وہ پارلیمان کے ایوانوں کے نقش ثانی کا خلاصہ اور گارنٹی دونوں سمجھتے تھے۔ جب سابق برطانوی وزیراعظم کلیمنٹ ایٹلی نے، برطانوی آئینی کمیشن کے رکن کے طور پر، ہندوستانی قائدین کو امریکی صدارتی نظام بطور ماڈل تجویز کیا، تو وہ یاد کرتا ہے کہ ‘انہوں نے اسے بڑی شدت سے رد کر دیا۔ مجھے یوں لگا جیسے وہ سمجھ رہے ہیں کہ میں انہیں مکھن کی جگہ مارجرین پیش کر رہا ہوں‘۔ ہمارے بہت سے آزمودہ کار ارکان پارلیمنٹ، جن میں سے کئی ایک انگلینڈ میں تعلیم حاصل کر چکے تھے اور برطانوی پارلیمانی روایات کو تحسین آمیز نظروں سے دیکھتے تھے، نے برطانوی پارلیمانی کنوینشنز کے ساتھ اپنی وابستگی پر جشن مسرت منایا اور اپنے طرز عمل کے مستند ہونے کی خود ہی توصیف کی۔
ہندوستانی ایم پیز آج بھی پسندیدگی کے لیے ہاتھوں سے تالیاں بجانے کی بجائے، منظوری کے لیے ڈیسک بجاتے ہیں۔ جب کوئی بل ووٹنگ کے لیے پیش کیا جاتا ہے تو اظہار توثیق کے لیے اب بھی ‘یس‘ کی بجائے ‘ائے‘ ہے۔ حتیٰ کہ ہمارے کمیونسٹ بھی اس نظام کو بڑی خوشی سے قبول کر چکے ہیں؛ ایک انگریز نواز مارکسسٹ ایم پی، پروفیسر ہیرن مکرجی، بڑے فخر سے جتایا کرتے تھے کہ برطانوی وزیراعظم انتھونی ایڈن وقفہ سوالات کے دوران آسٹریلین کی نسبت ہندوستانی پارلیمان میں زیادہ مانوسیت محسوس کرتے تھے۔
لیکن آزادی کے چھ عشرے خاصی اہم تبدیلی لے کر آئے ہیں، جوں جوں برطانوی اعمال کی تاثیر زائل ہوتی گئی ویسے ہی ہندوستانی فطری تندی واپس عود آئی۔ وفاقی نظام میں چند ریاستوں کی اسمبلیاں پہلے ہی فرنیچر پھینکے جانے، مائکروفون توڑے جانے اور سرکش قانون سازوں کے سلیپرز پھینکنے کے واقعات کی شاہد ہیں، ہاتھا پائی اور سیاستدانوں کے درمیان دھینگا مشتی میں کپڑے پھٹنے کے ذکر کی ضرورت نہیں۔ ایک احتجاج کرنے والے رکن پارلیمنٹ کی جانب سے قومی مقننہ میں بجا طور پر مرچوں کا سپرے کیا جا چکا ہے۔ اور اس کے لیے شاید ہم انگریزوں کو الزام نہیں دے سکتے۔
اور یہ دلیل کہ برطانیہ ہمیں خود مختار اداروں اور جمہوریت کی زین پوش کے ساتھ چھوڑ کر گیا، اس دلیل کی سچائی نوآبادیاتی جبر کی حقیقت کے سامنے ناکام ہو جاتی ہے۔ مجھے اس کا حوالہ دینے دیں جو واقعی نوآبادیاتی آزمائش سے ہو کر گزرا ہے، جواہر لال نہرو، جس نے ایک انگریز لارڈ لوتھین کو 1936 کے ایک خط میں لکھا کہ برطانوی حکومت ‘ایک پھیلے ہوئے فساد کی انتہائی شکل پر بنیاد رکھتی ہے اور اس کا واحد قاعدہ دہشت ہے۔ یہ ان عمومی آزادیوں پر قدغن لگاتی ہے جو عوامی ترقی کے لیے ضروری سمجھی جاتی ہیں؛ یہ مہم جو، بہادر اور حساس کو کچل دیتی ہے، اور بزدل، موقع پرست اور ابن الوقت، چاپلوس اور دنگا باز کی حوصلہ افزائی کرتی ہے۔ اس نے جاسوسوں، مخبروں اور فتنہ انگیزوں کی فوج کے درمیان خود کو پھنسایا ہوا ہے۔
کیا یہ وہ ماحول ہے جس میں مرغوب صفات پنپتی اور جمہوری ادارے پروان چڑھتے ہیں؟ ‘ نہرو بات کرنا جاری رکھتے ہیں، ‘انسانی عزت نفس اور شائستگی کو کچلنا، روح کے ساتھ ساتھ جسم کو بھی زخمی کرنا‘ جو کہ ‘ان کی بھی تذلیل کرتی ہے جو اسے استعمال کرتے ہیں اور ان کی بھی جو اسے جھیلتے ہیں‘۔ ہندوستان میں جمہوریت اور اس کے اصولوں کے احترام کی ترویج و بہرہ مندی کا بامشکل ہی یہ طریق ہو سکتا تھا۔ ہندوستان کی روح جو ایک قوم کی عزت نفس کی بنیاد ہے ـــــ کو دیا گیا یہ زخم __ ہی وہ چیز ہے جس سے نوآبادیات کے عذر خواہوں نے ہمیشہ چشم پوشی کی ہے۔
، ششی تھرور کی کتاب “عہد ظلمات” سے ایک اقتباس
♣
One Comment