افغانستان کے صدر اشرف غنی نے متحدہ عرب امارات سے ایک ویڈیو پیغام جاری کیا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ میں حسب معمول اپنے کام میں مصروف تھا کہ میری سیکیورٹی والوں نے مجھے مطلع کیا کہ آپ کی زندگی خطرے میں ہے۔ ہو سکتا ہے کہ کچھ لوگ آپ کو مار دیں اس لیے بہترہے کہ آپ یہاں سے نکل جائیں۔ وہ کہتے ہیں کہ میں ایک شلوار قمیض جو پہن رکھی تھی اسی میں بھاگا۔ میرے تمام کانفیڈیشنل ڈاکومنٹ وغیرہ وہیں رہ گئےاور نہ ہی میں کوئی بکسوں میں رقم لے کر بھاگا ہوں۔ائیرپورٹ پر موجود حکومتی افسران اس بات کی گواہی دے گے ۔ وغیرہ وغیرہ۔
اشرف غنی مزید کہتے ہیں کہ مجھے سیکیورٹی والوں نے بتایا ہے کہ میرے نکلنے کے کچھ دیر بعد صدارتی محل میں ایک غیر قومی زبان (پشتو نہ فارسی)بولنے والے داخل ہوئے اور مجھے ڈھونڈ رہے تھے۔ ان کا اشارہ پاکستان کی طرف ہو سکتا ہے۔
ایک بات یاد رکھیں کہ اشرف غنی کا دور صدارات میں بہت زیادہ مشکلات درپیش تھیں ایک تو ان کی حکومت کے اندر بہت زیادہ اختلافات تھے، ان کے پارٹنر عبداللہ عبداللہ اور حامد کرزئی وغیرہ بھی ان میں شامل تھے۔ پھر یہ بھی یاد رکھیں کہ مختلف مواقع پر اشرف غنی پر حملے بھی ہوئے جس میں وہ بچے نکلتے رہے۔
طالبان کے قبضے کے تین دن بعد اب عبداللہ عبداللہ اور حامد کرزئی طالبان کے ساتھ مذاکرات کررہے ہیں جس کی تصاویر بھی شائع ہوئی ہیں اور انھوں نے پاکستان کے سفیر سے بھی ملاقات کی ہے جس کا مطلب ہے آئی ایس آئی سے۔
تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ اشرف غنی کی حکومت میں اختلافات اس وقت زیادہ ہوگئے جب امریکہ نے دوحہ میں طالبان سے مذاکرات شروع ہوئے۔ اور جب اشرف غنی کے مخالفین نے دیکھا کہ امریکہ طالبان سے معاہدہ کرکے نکلنے کی تیاری میں ہے تو انھوں نے درپردہ طالبان سے مذاکرات شروع کردیئے۔ یہی وجہ ہے کہ ابتدا میں کچھ علاقوں میں مزاحمت کے بعد طالبان شہروں پر قبضہ کرتے چلے گئے۔
ڈیلی ڈان کے رپورٹر اسماعیل خان بھی کچھ دن پہلے کچھ اسی قسم کی رپورٹنگ کرچکے ہیں۔ اسماعیل خان لکھتے ہیں کہ اشرف غنی کی انتظامیہ کے کچھ لوگ بیک چینل کے ذریعے طالبان سے رابطے میں تھے۔ ان افراد میں بہت اہم سیاسی شخصیات اور فوج کے عہدیدار تھے ان کے مطابق اشرف غنی بہت زیادہ بیورکریٹک اور تنہا ہو چکے تھے۔
طالبان نے جس سرعت سے کابل پر قبضہ کرکے دنیا کو حیران کیا ہے اس کی وجہ یہی واقعات ہیں۔اس وقت کابل میں روس، چین، پاکستان اور ایران کے سفارت خانے کھلے ہیں باقی سب بند ہیں۔
ایک اور بات یاد رکھنے کی ہے کہ سابق صدر حامد کرزئی کے ملا برادر سے دوستانہ تعلقات ہیں۔ حامد کرزئی جب صدر تھے تو کراچی میں موجود طالبان کے رہنما ملا برادر سے وہ رابطے میں تھے۔ لیکن جب آئی ایس آئی کو پتہ چلا کہ بالا ہی بالا کچھ ہورہا ہے تو انھوں نے اسے پکڑ کر جیل میں ڈال دیا تھا۔
عبداللہ عبداللہ اور حامد کرزئی نئی حکومت بنانے کے لیے مذاکرات جاری رکھے ہوئے جس کی تصاویر بھی آگئی ہیں۔ ان میں حامد کرزئی اور عبداللہ عبداللہ، طالبان کے رہنما خلیل الرحمن حقانی اور پاکستانی سفیر سے ملاقات کررہے ہیں۔
شعیب عادل