مبارک حیدر
مسلم معاشروں میں عورت کا آدھا انسان ہونا تو ایک معمول رہا ہے ۔ کبھی کبھی عورتوں اور بچوں کے ریپ کی خبریں بھی سنی جاتی تھیں ، مرد کی غیرت کے نام پر عورت کا قتل ، ونی ، اور بچیوں کے نکاح بھی ہمیشہ سے چل رہے تھے ، مگر یہ دور دراز دیہاتوں کی ذلتیں تھیں جن پر شہروں کے لوگ دکھی ہوتے تھے ۔ لیکن پاکستان کے بھرے شہروں کے پبلک پارکوں میں ، کھلی سڑکوں پر ، بہتی ٹریفک کے عین بیچ عورت کی تذلیل اور اجتماعی ریپ اور اس پر مردوں کے ہجوم تماشائی اور قہقہے ! یہ ایک ایسا اضافہ ہے جس کی مثال مشکل ہے ۔
ہم سب جانتے ہیں کہ پاکستان میں عورتوں کے ساتھ ہونے والے جنسی جرائم کے جتنے واقعات سامنے آئے ہیں ان میں کوئی غیر مسلم مرد ملوث نہیں پایا گیا ۔ یعنی یہ سب وارداتیں مسلمان مردوں نے کیں ، اور ان کا شکار بھی پاکستان کی مسلمان عورتیں ہوئیں ۔ جب فیس بک پر ریپ کے واقعات پر بحث چلی تو مسلمان مردوں کا دفاع کرنے والوں نے بار بار یہ دہرایا کہ ایک گوری نے پاکستان بھر میں سیاحت کی لیکن کسی مسلمان نے اس کا ریپ نہیں کیا ۔ یعنی یہ طے ہوا کہ ہمارے مسلمان کے ہاتھوں صرف مسلم عورت ہی کا ریپ ہوتا ہے ۔
ایک غیر ملکی جرنلسٹ نے جب پاکستان کے وزیر اعظم سے اس کا سبب پوچھا تو انہوں نے کہا ہمارے یہ نوجوان انسان ہیں کوئی روبوٹ تو نہیں ۔ جب عورت دلکش نظر آئے گی تو یہ خود کو کیسے روکیں گے ! لہٰذا طے ہوا کہ ریپ کا ہونا فطری ہے ۔ اور اگر عورتوں نے بچنا ہے تو انھیں چاہئے کہ دکھائی نہ دیں یا جتنا ہو سکے بد صورت دکھائی دیں ۔
وزیر اعظم عمران خان کی یہ منطق نئی نہیں ۔ اس سے پہلے بھی ہمارے مسلم مدبروں کی نظر میں ہماری مسلم عورت برفی ، مٹھائی یا چینی ہے اور مسلمان مرد ایک مکھی ہے ، لہٰذا اگر عورت موٹے لفافے میں لپٹی ہوئی نہ ہو تو مسلمان مرد کا بے قابو ہونا بالکل فطری ہے ۔
یہاں مسلمان مرد کی تخصیص اس لئے ضروری ہے کہ پاکستان کے حکمران طبقوں نے ہر بات میں ، ہر معاملہ میں اسلام کو ریفرنس بنا دیا ہے ۔ لہٰذا یہاں ہر انسان یا تو مسلمان ہے یا غیر مسلم ہے ۔ اس کا صرف انسان کے طور پر کوئی تشخص باقی نہیں رہا ۔ لہٰذا جب فطری اور غیر فطری کی بحث ہوگی تو یہ ماننا پڑے گا کہ مسلمان کی فطرت انسان کی فطرت سے الگ ہے ۔
اگر مسلمان کی فطرت انسان سے مختلف ہے تو کتنی ؟ اس کا تعین مسلم علما کریں یا پھر وزیر اعظم عمران خان کریں جن کا خیال ہے کہ وہ پاکستان کو مدینہ کی ریاست بنا سکتے ہیں یعنی وہ کام جو پہلے دو خلفائے راشد نے کیا تھا اور جو پچیس سال میں بادشاہت بن کر ختم ہو گیا تھا ، اور پھر چودہ صدیوں میں دوبارہ قائم نہیں ہو سکا ، وہ کام خان صاحب کے ہاتھوں ہوجانے والا ہے ۔
انسان کی فطرت کیا ہے؟ کیا یہ فطرت حیوان کی فطرت سے بہتر ہے یا بہتر ہونی چاہئے ؟ مسلمان اگر تمام انسانوں سے بہتر کوئی مخلوق ہے تو کیا اس کی فطرت انسانوں سے بہتر ہونی چاہئے یا ایک مکھی جیسی ؟
حیوان کی دنیا میں مادہ برقعہ نہیں پہنتی ، صرف اسکی دم ہی اس کا ستر ڈھانپتی ہے ، وہ اپنے دودھ بھی نہیں ڈھانپتی ، پھر بھی دودھ پلانے والے جانوروں میں کوئی نر اپنی مادہ کی خواہش اور اجازت کے بغیر اس سے جنسی ملاپ نہیں کرتا ۔ حتیٰ کہ سور اور کرلا اتنا غلیظ نہیں ہوتا کہ مادہ پر حملہ کر دے ۔ جانور صرف بھوک اور پیاس کی حالت میں یا موت سے بچنے کے لئے بے اختیار ہوتا ہے ۔
انسان کا شرف اس سے بھی بڑا ہے ۔ یہ شرف صرف انسان کو حاصل ہے کہ وہ انتہائی بھوک اور پیاس کی حالت میں خود کو روک سکتا ہے ، حتیٰ کہ زندگی پر موت کو ترجیح دے کر زہر کا پیالہ پی لیتا ہے ۔ وہ مکھی نہیں کہ دھتکارنے پر بھی چمٹتا چلا جائے !۔
کیا خان صاحب کے علم کی رو سے وہ مسلمان جو روکھی سوکھی کھا کر گرمیوں کے لمبے روزے نبھا لیتا ہے وہ ایک عورت کو دیکھ کر جانور سے بھی کمتر فطرت پر اتر جاتا ہے ؟
ہم سب جانتے ہیں کہ حیوان اور انسان کی جنسی ضرورت اتنی شدید نہیں ہوتی جتنی خوراک اور پانی کی ضرورت ہوتی ہے ۔ اور انسان نے مجبوری کی حالتوں میں اپنی جنسی ضرورت پوری کرنے کے لئے کئی رستے ایجاد کئے ہیں ۔ اسے قبر کھود کر مردہ عورت نکالنے کی ضرورت نہیں ہوتی ۔
اس سارے انسانی زوال کے پیچھے شاید کوئی بڑا منصوبہ ہے ۔ اس پر کئی اندازے لگاے گئے ہیں ۔ ایک رائے یہ ہے کہ یہ عورتوں کی تحریکوں یعنی ‘فیمینزم‘ کے خلاف ایک منظم ردعمل ہے جسے مذہبی تنظیموں نے منظم کیا ہے ۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ریپ کا شکار ہونے والی عورتوں میں سے کوئی بھی فیمنسٹ تحریک سے وابستہ نہیں ہے نہ ہی فیمنسٹ تحریک کی سرکردہ عورتوں نے ریپ کی حالیہ وارداتوں پر کسی بڑے رد عمل کا اظہار کیا ہے ۔ شاید ہمارے بے قابو مسلمان کو اونچے طبقہ کی خواتین اس امریکن گوری کی طرح کرسچین لگتی ہیں جو پورے ملک میں مسلمانی جذبات سے محفوظ رہی تھی ۔
ایک اور خیال یہ ہے کہ ریپ کے سب واقعات خان صاحب کے روبوٹ والے انٹرویو کے بعد انکے جوشیلے کارکنوں نے کئے ہیں ۔ا گرچہ یہ خیال بہت مبالغہ آمیز ہے لیکن شاید اس حد تک ٹھیک ہے کہ پاکستانی مسلمانوں کا ایک طبقہ ایسا ضرورہے جو خان صاحب کے خیالات کو علم و دانائی کی معراج مانتا ہے ۔
ایک افواہ امریکہ کے سیاسی حلقوں میں سنی گئی ہے کہ ان وارداتوں کے پیچھے طالبان کی ایک خفیہ تنظیم ہے جو عورتوں کو گھروں اور پردوں میں سمٹ جانے کے لئے تیار کرنا چاہتی ہے ۔
لیکن میرے خیال میں یہ سب واقعات صرف علامتیں ہیں اس بنیادی مرض کی جو اس معاشرہ کو ایک مدت سے کھوکھلا کرتا جا رہا ہے ۔ ملّا گردی وہ مرض ہے جس نے لوگوں کے ایمان کو جہالت اور بے حسی کی رہ پر ڈال کر اسلامی روبوٹ بنا دیا ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ ہمارے عام آدمی کو “حقوق الله ” کی ادائیگی پر یوں لگایا گیا ہے کہ “حقوق العبا د ” کا مضمون نصاب سے باہر ہو گیا ہے ۔
اول تو اس کے پاس وقت ہی نہیں بچتا کہ وہ روٹی روزگار اور جسمانی ضرورتوں کو پورا کرنے کے علاوہ بھی کچھ اور کر سکے ، دوسرے اس ملک میں تہذیب نفس اور شرف انسانی کی تربیت کو غیر اسلامی قرار دیا جا چکا ہے ۔ دین کا کاروبار اور دین کی سیاست کرنے والوں نے مسلمان کو یقین دلا دیا ہے کہ اگر اسے اسلام پر فخر کرنا آتا ہے تو اسے انسان بننے کی ضرورت نہیں ۔ اسلام کی کہانیوں اور“حقوق الله ” کے تکبر نے اسے حقوق العباد کی خبر ہی نہیں ہونے دی ۔ عام لوگ تو ایک طرف ، ہمارے یونیورسٹی لیول کے سٹوڈنٹ کو یقین ہے کہ علم اور تہذیب صرف مسلمان کے پاس ہے اور بہترین مسلمان وہ ہے جو ارکان اسلام کا پابند ہے ۔اور ایسے نیک مسلمان کا بیڑا پار ہے ۔
ملّا گردی نے ہمارے اس عام آدمی کی انسانیت کو بننے سنورنے کا وقت ہی نہیں دیا ۔ خود ملّا یعنی عالم دین نہیں جانتا کہ ہم بہت کم جانتے ہیں ۔ مسلمان مرد عزت نفس اور تکبر میں فرق نہیں کرتا کہ تکبر جارحیت کو جنم دیتا ہے ، جبکہ عزت نفس اپنی مدافعت کی صلاحیت کا نام ہے جو دوسرے کی عزت نفس کو پامال کرنے سے خود پامال ہو جاتی ہے ۔
ملّا گردی کا سب سے بڑا پھل طالبان کا ظہور ہے ۔ اور یہ بات سب کے علم میں ہے کہ طالبان کا “اصلی اسلام ” انسانی حقوق کے موجودہ نظریات کو مسترد کرتا ہے ۔ یعنی غیر مسلم اور عورت کو برابر کا انسان نہیں مانتا ۔ پاکستان ایک مدت سے اسی اصلی اسلام کی طرف بڑھ رہا ہے ۔لہٰذا اگر کوئی معجزہ طالبان کے نظریات کو بدل دے تو اور بات ہے ورنہ دنیا کے اس کم نصیب خطے میں عورت کا مستقبل اشکوں کے سوا کچھ نہیں ۔
طالبان ، مسلم عورت اور پاکستان میں تعلیم کا مستقبل کیا نظر آتا ہے؟ یہ سوال بہت الجھے ہوئے اور بہت پیچیدہ ہیں ۔ ہم ان سوالوں پر صرف سوال اٹھا سکتے ہیں ۔ اس سے بڑھ کر ہم جیسے عام لوگوں کے بس میں کچھ نہیں ۔
♣
One Comment