زرک میر
راتوں رات جنگل کا بندھنوں سے آزاد قانون بدل گیا ، جنگل کے مولوی جانوروں نے درختوں پر چڑھ کر جنگل پر قبضہ کر لیا اور فیصلہ کیا کہ جنگل سے برہنگی اور بے پردگی کو ختم کرنا ہے اس لئے انہوں نے سب سے پہلے بغیر بال والے ننگے جانوروں کو فتویٰ بھیج دیا کہ وہ اپنے جسم ڈھاپنے کا جلد ازجلد بندوبست کریں اور جبکہ ایسے جانور جن کے جسموں پر بال بھی تھے اور وہ دم بھی رکھتے تھے انہیں ہدایت کی گئی کہ وہ اپنی دمیں اپنی شرمگاہوں پر لٹکائے رکھیں اور انسانوں کی مونچھوں کی طرح انہیں تائو کی صورت میں نہ رکھیں کہ اس سے ان کی غیرت دکھائی دینے کی بجائے ان کی برہنگی ظاہر ہوتی ہے اور سب کچھ آشکار ہورہا ہوتا ہے۔
لہذا زیادہ بال رکھنے والے اور دم لٹکا کر رکھنے والے جانورتو کچھ خیر سے رہے لیکن باقیوں کو تشویش لاحق ہوئی ۔ بالخصوص سانپ ، چپکلی جو بالکل فارغ البال تھے انہوں نے تو اپنے آپ کو انتہائی غیر محفوظ محسوس کیا جبکہ باقی جن کے جسم پر بال تھے اور ان کی دم بھی تھی مثلا بندر ، کتا ، بکرا بکری وغیرہ وغیرہ ، لیکن وہ ان کی دمیں شرمگاہوں پر لٹکی ہوئی نہیں تھیں وہ انسانوں کی مونچھوں کی طرح تاؤ دی ہوئی تھیں ان کو بڑا دھچکا لگا ۔ وہ پہلے تو حیران رہ گئے کہ یہ شریعت ان پر کیسے نافذ ہوگئی ہے ۔
البتہ آخر الذکر جانوروں کواپنے مسئلے کا حل کچھ آسان لگا وہ اپنی دمیں تیل میں رکھنے لگے کہ انہیں انسانی مونچھوں کی طرح تاؤ کی صورت کی بجائے نرم کرکے نیچے لٹکایاجاسکے جس طرح انسان اپنی مونچھوں کو تیل لگا کر تاؤ دیتے ہیں لیکن دلچسپ صورتحال اس وقت سامنے آئی جب ان کی اپنی دموں کو نیچے لٹکانے کی تمام کوششیں رائیگاں گئیں ۔
جبکہ سانپ چپکلی اور عشرات الارض کو تو الٹی میٹم دیا گیا کہ وہ جلد ازجلد اپنے جسموں کو ڈھانپنے کا کچھ بندوبست کریں ورنہ انہیں سنگسار کرکے جنگل بدر کیاجائیگا کیونکہ ان کا تو پورے کا پورا جسم یونہی ننگا نظر آنے لگا تھا جو بال دار مولوی نما جانوروں کی نیت خراب کرنے کیلئے کافی تھا ۔
لیکن ان جانوروں جن کی دمیں ان کی شرمگاہوں پر لٹکتی رہیں ان کو ایک اور مسئلے کا سامنا رہا کہ انہیں کہا گیا کہ وہ اپنی دودھ بھری تنوں کو چھپائیں ورنہ انہیں بھی سنگسار کیا جاسکتا ہے ،مثلا گائے بھینس وغیرہ وغیرہ ۔
مولوی جانور مثلا شیر چیتا بھیڑیا اور لگڑر بگا وغیرہ نے اپنی شرعی عدالتیں لگائیں اور انہوں نے ایسے جانوروں کا شکار عام شروع کردیا اس دوران ہاتھی کچھ سکون سے رہا کہ اس کی جسامت یوں بھی بہت بڑی تھی اور عریانیت کے کچھ بھی آثار اس سے واضح نہیں ہوتے تھے اور تھا بھی کالا ، تب شرعی فتوؤں کے زد میں آنے والے سارے جانور ہاتھی کے پاس گئے اور اپنی فریاد سنائی ۔ سانپ چھپکلی اور دیگر حشرات الارض نے تو کہا کہ ان کیلئے بال رکھنا ممکن ہی نہیں رہا ہمیں تو قدرت کی طرف سے بھی بال عطاء نہیں کئے گئے ہیں جبکہ بکرا بکری بندر ، کتا وغیرہ نے ہاتھی سے کہا کہ وہ کوشش کررہے ہیں کہ اپنی انسانوں کی مونچھوں کی مانند ٹیڑھی دموں کو سیدھا کرکے اپنی شرمگاہوں کوچھپائیں اس وقت تک ان کو مہلت دلادیں ۔
ہاتھی نے اپنی سونڈ کچھ دیر یہاں وہاں گھمائی اور کہا کہ اسے اس پر سوچنے کا موقع دیا جائے تاکہ میں اس پر کوئی مشورہ دے سکوں ۔
اگلے دن جب پریشان حال سب جانور ہاتھی کے پاس پہنچے تو دیکھا کہ ہاتھی پر ایک انسان بیٹھا باقی ہاتھیوں کو شہر کی طرف ہانک رہا ہے ، یہ پریشان حال جانور مزید پریشان ہوگئے ، ان میں سے کتے نے کمال ہوشیاری سے جا کر ہاتھی سے پوچھ لیا کہ یہ کیا ماجرہ ہے۔
ہاتھی نے کہا ” یارو تم لوگ تو اپنی دموں کو اپنے شرمگاہوں پر لٹکانے میں کسی نہ کسی دن کامیاب ہوجاؤ گے لیکن میرے یہ دانت میرے لئے مصیبت بن گئے ہیں میں اپنی ان سفید اور برہنہ دانتوں کا کیا کروں جن کو میں کبھی نہ چھپا سکونگا ۔ یہ انسانوں کو برہنہ اور خوبصورت لگے ہیں وہ ان کو نکالنے کیلئے ہمیں شہر لے جارہے ہیں” اورآپس میں بار بار کہہ رہے ہیں کہ ہاتھی کے دکھانے کے دانت اور کھانے کے اور ۔اور یہ کہ زندہ ہاتھ لاکھ کا اور مرا ہوا ہاتھی سوا لاکھ کا ۔
تم لوگ بھاگو کہ یہ انسان آپس میں کہہ رہے ہیں کہ وہ کچھ جانوروں کا گوشت کھائیں گے جبکہ کچھ کا دودھ پییں گے ، سانڈے اور اس جیسوں کے تیل سے انسان اپنے عضو تناسل کو مالش کرنے کا نسخہ بھی انہوں نے ڈھونڈ لیا ہے ، بندروں کو گلی گلی نچانے ، کتوں کو چوکیداری کیلئے جبکہ پہاڑی بکروں کو شکار کرکے ان کے سینگوں والے سر اپنے مہمان خانوں میں لٹکانے اور ان کو اپنی وحشت کی علامت ” مار خور” کے طورپر استعمال کرنے کی ٹھان لی ہے ۔ جبکہ سپیرے اور موچی سانپوں کو پکڑنے کیلئے آرہے ہیں تاکہ ان کی نمائش کی جاسکے اوران کے چمڑے سے خصوصی نوابی خانی اور حیوانی جوتے بنائے جاسکیں ۔
یہ سن کر بندر نے کہا ” انسان میری نسل سے ہیں میں ان کی نفسیات جانتا ہوں کہ وہ یہاں ضرور آئے گا یہ اپنی سگریٹ سلگانے کیلئے اب تک جنگل کے جنگل ماچس کے طورپر پھونک چکا ہے ۔ یہ بے چین شہ ہے ۔
بکری نے کہا ” پھر ہمیں کیا کرنا چاہئے ، ہاتھی نے کہا ” اب یہ جنگل جنگل نہ رہا ، اب یہ شہر بن چکا ہے ۔ اب کہیں اور جا کر جنگل بسا لو۔ یہ کہہ کر ہاتھی اپنے کانوں کو جنبش دیتے ہوئے انسانوں کی بستی کی جانب جانے لگا ۔ ہاتھی کی باتوں سے خوف وہراس پھیل گیا دیکھتے ہی دیکھتے جنگل سے نکلنے کیلئے برہنہ بے پردہ ، ٹیڑھی دم اور لٹکتے تنوں والے کافر جانوروں کا جنگل کی سرحد پر لائنیں لگی ہوئی تھیں ۔ جبکہ خونخوار لگڑ بگے اور بھیڑیئے ان کی جانب لپک لپک کر ان کو چھیڑ پھاڑ رہے تھے ۔۔۔۔گھمسان کا رن پڑا تھا
♠
One Comment