سات7 ستمبر2021 کو طالبان نے اپنی عبوری حکومت کا اعلان کردیا ہے۔ امیر المومنین مولوی ہیبت اللہ خود توسامنے نہیں آئے لیکن انھوں نے اپنی گورنمنٹ کا اعلان کردیا ہے۔ کچھ دوستوں کا خیال ہے کہ مولوی ہیبت اللہ کوئی اور نہیں بلکہ جنرل فیض حمید کا ہی دوسرا نام ہے۔
تمام کابینہ پشتونوں پر مشتمل ہے۔ کابینہ کی فہرست سوشل میڈیا پر گردش کررہی ہے۔ سب کے سب مذہبی انتہا پسند ،لڑاکا اور جنگجو ہیں۔آدھے سے زیادہ ارکان پچھلی طالبان حکومت سے ہی تعلق رکھتے ہیں ۔ کابل پر قبضے کے بعد طالبان کے ترجمان نے کہا تھا کہ ہم ایک وسیع البنیاد یا کثیر القومی حکومت بنائیں گے لیکن وہ اپنے اس وعدے پر پورا نہیں اتر سکے۔
امیر المومنین نے عبوری مدت کا تعین بھی نہیں کیا۔ یہ چند ماہ بھی ہو سکتے ہیں اور کئی سال بھی۔ مغربی میڈیا کا خیال تھا کہ افغانستان کے ممکنہ صدر یا وزیراعظم مُلا عبدالغنی برادر ہونگے کیونکہ پچھلے دو سال سے وہی دوحہ مذاکرات میں مرکزی کردار ادا کررہے تھے۔ ان کا خیال ہے کہ انہیں کمتر پوزیشن دی گئی ہے۔
نئی حکومت میں حامد کرزئی اور عبداللہ عبداللہ کو بھی کھڈے لائن لگا دیا ہے جنہوں نے کابل میں اشرف غنی کی حکومت گرانے میں اہم کردار ادا کیا تھا اور کابل پر طالبان کے پرامن قبضے کو یقینی بنایا تھا۔اورطالبان کے قبضے کے اگلے ہی روز انھوں نے قبائلی عمائدین سے ملاقاتیں شروع کر دی تھیں۔یاد رہے کہ طالبان کو امریکہ کے خلاف ایران نے بھی کافی مدد کی ہے۔ لیکن اس حکومت میں ہزارہ اور تاجکوں کو بھی کوئی نمائندگی نہیں ملی۔
بہرحال آنے والے دنوں میں اندازہ ہوگا کہ افغانستان کی نئی حکومت کی کیا ترجیحات ہیں ۔ ایسی حکومت تو چین اور روس کو ہی قابل قبول ہو سکتی ہے مغرب کو نہیں ۔
شعیب عادل