مبارک حیدر
نئے پاکستان کی نئی نسل کے لئے نصاب آ گیا ہے ۔ جنرل ضیاء الحق نے سائنس کو مروڑنے کا ارادہ کیا لیکن زندگی نے وفا نہ کی ۔ ان کے نظریات سے متفق لوگوں کو وقت ملا ہے تو دیکھیں کیا ہوتا ہے ۔ علم کو عقیدہ کے ماتحت کرنے کے عمل سے مسلم امہ کو پہلے امریکی سامراجیوں کی محبت ملی ، کیونکہ ہماری جہالت سے انھیں آرام رہا ، اب شاید ہم سلطنت چین کی سرپرستی سے مالا مال ہونے والے ہیں ۔
پہلی کلاسوں میں فزکس کی کتاب کا پہلا سبق دیکھیں ۔ بتایا گیا ہے کہ الله نے فرمایا “کن” تو کائنات وجود میں آ گئی ۔ یہاں ‘کن فیکون‘ کے بیان کو بگ بینگ کی جگہ لینے کے لئے استعمال کیا گیا ہے ۔ حالانکہ ‘کن فیکون‘ کا معنی صرف یہ ہے کہ الله نے کہا ‘ہوجا تو ہو گیا ‘ اس کا معنی یہ نہیں کہ اس نے کہا ہو جا تو وہ اسی وقت ہو گیا ۔ ان الفاظ میں وقت یا فوریت کی کوئی تخصیص موجود نہیں ۔ جبکہ قرآن میں زمین و آسمان کی تخلیق کا دورانیہ چھ دن بیان کیا گیا ہے ۔ اور اس کی تفصیل ایک بار نہیں ، کئی بار بیان کی گئی ہے ۔ تخلیق کا بیان دیکھئے القران ۔25:59 ، 7:54 ، 11:7 ، 32:4 اور بہت سی اور آیات ۔
قرآن میں ہے کہ الله نے زمین اور آسمان اور سورج اورستارے چھ دن میں بنائے اور جن دو دن میں زمین بنائی تو اس کا عرش پانی پر تھا ۔ اور پھر آسمان بنا کر اس پر تشریف فرما ہوا ۔ یہی بیان انجیل اور تورات کا بھی ہے لیکن تورات نے کہا کہ ساتویں دن خالق نے آرام کیا جبکہ قرآن نے آرام کو الله کی شان کے منافی قرار دیا جیسا کہ آیت الکرسی کی آیت ‘لا یعودہ حفظھما ‘ سےظاہر ہے ۔ قرآن کے مطابق سورج اور چا ند ستارے زمین کے گرد گھومتے ہیں ۔
صحیح بخاری اور مسلم میں ہے کہ رسول الله صلعم نے حضرت ابو ذر غفاری کو بتایا کہ سورج رات بھر زمین کے نیچے ایک مقام پر عبادت کرتی ہے اور صبح ہونے پر اللہ سے طلوع ہونے کی اجازت مانگتی ہے (قرآن اور حدیث میں سورج کے لئے تانیث کا صیغہ آتا ہے ) ان عقاید پر قائم رہنے کا حق میرا اور آپکا ذاتی حق ہے کیونکہ ہم کہہ سکتے ہیں کہ الله ہی جانتا ہے کہ اس کے الفاظ کے اصل معنی کیا ہیں ۔ لیکن ہم اپنی نسلوں کو اس متفقہ علم سے محروم نہیں رکھ سکتے جس کی بنیاد پر قومیں خلاؤں کو تسخیرکر رہی ہیں ۔
سائنس کے مطابق کائنات “بگ بینگ ” یعنی ایک عظیم دھماکہ سے وجود میں آئی ۔ جس میں کوئی وقت نہیں لگا ۔ اور اس تھیوری میں کسی خالق کا ذکر نہیں کیونکہ سائنس یعنی علم کا نظریہ یہ ہے کہ ہم ابھی خالق کو جاننے کے قابل نہیں ہوئے ۔ اتفاق رائےصرف اس بات پر ہو سکتا ہے جسے جاننا ، آزما کر دیکھنا اور ثابت کرنا ممکن ہو ۔ اور چونکہ ہم ابھی کائنات کو ہی مکمل طور پر نہیں جانتے بلکہ صرف توانائی اور اس سے بننے والے عناصر کو جان پائے ہیں ، لہٰذا اس کے خالق کو جاننا اور ثابت کرنا ممکن نہیں ۔
عقیدہ ہر انسان کے فہم اور حالات پر منحصر ہوتا ہے ۔ یہ الله اور فرد کے درمیان ایک رشتہ ہے جسے آج تک کسی ایک معیار پر قائم کرنا ممکن نہیں ہوا ۔ جبکہ انسانوں کے درمیان دنیاوی معاملات طے کرنے کے لئے علم کو عقائد سے الگ رکھا جاتا ہے ۔ اور اس پر ہر مذھب کے ماننے والے سائنسدان متفق ہو کر کام کرتے ہیں ، اور اس اتفاق رائے سے کسی عقیدہ کو نقصان بھی نہیں پہنچتا ۔
جہاں تک ایمان کا تعلق ہے ، تخلیق کے اس نظریہ پر سب مذاہب متفق نہیں جبکہ کائنات اور عناصر کے علم پر سب مذہبوں کے سائنسدان متفق ہیں ۔
اگر پاکستان کی آئندہ نسلوں کو سائنس سے بے علم رکھ کر باقی انسانیت سے الگ کرنے کا فیصلہ ہو گیا ہے تو بہتر ہے کہ ان کے ایمان کو قران کی اصلی اور قدیم تعلیمات پر رہنے دیا جائے تاکہ وہ آدھے تیتر آدھے بٹیر کی بجاۓ یکسوئی سے کم از کم ریاست مدینہ اور طالبان کی جہاد کے مجاہد تو بن سکیں ۔ انھیں موڑی ہوئی سائنس اور مروڑی ہوئی دینیات میں الجھا کر ہم نہ جانے کیا کرنا چاہتے ہیں ۔
♠