لیاقت علی
تحریک انصاف اوروزیر اعظم عمران خان سمند پار پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینے کے پرجوش حامی ہیں اور اس کے لئے وہ قانون سازی کرنے کے خواہاں ہیں بلکہ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ اگلے کچھ عرصے میں شائد وہ سمندر پارپاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینے کا قانون پارلیمنٹ سے منظور کرانے میں کامیاب بھی ہوجائیں گے۔
وزیر اعظم عمران خان کو خوش فہمی ہی نہیں بلکہ یقین ہے کہ سمندر پار پاکستانیوں کی اکثریت ان کی حامی ہے اورالیکشن میں انھیں ووٹ دینے کے رحجان کی حامل ہے اس لئے وہ مسلسل انھیں ووٹ کا حق دینے کی وکالت کرتے ہیں۔جب یہ سوال پوچھا جاتا ہے کہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو ووٹ کاحق کیوں دیا جائے تو ترنت جواب دیا جاتا ہے کہ وہ بیرون ملک محنت مشقت کرکے ہمیں زرمبادلہ بھیجتے ہیں،وہ ہمارااثاثہ ہیں وہ اگر اپنی بچتیں نہ بھیجیں توپاکستان کو زرمبادلہ کے بحران کا سامنا کرنا پڑجائے گا یہ علیحدہ بات ہے کہ ان کی بھیجی گئی بچتوں کے باوجود پاکستان کو ہروقت زرمبادلہ کے بحران کا سامنا رہتا ہے۔
سمندر پار پاکستانیوں کو عمومی طور پر دو حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ایک وہ پاکستانی ہیں جو یورپ، امریکہ اور کینیڈا میں رہتے ہیں ۔اکستانیوں کی یہ قسم مستقل طورپران ممالک میں رہنا چاہتی ہے اوران میں سے اکثریت کے پاس ان ممالک کی نیشنیلٹی بھی موجود ہے۔ انھوں نے نیشنیلٹی کے حصول کے لئے ہر قسم کی دونمبری ،جھوٹ اور فراڈ کا سہارا لیا ہوتا ہے لیکن جونہی انھیں نیشنیلٹی کا کاغذ ملتا ہے ان کے دل ودماغ میں پاکستان میں جہاں سے وہ بھاگ کر گئے ہوتے ہیں قرون وسطی کے سیاسی و سماجی اداروں کے قیام کا درد اٹھناشروع ہوجاتا ہے۔ وہ جو پاکستان سے بھاگنے کے لئے جھوٹ اور منافقت کا ہر حربہ استعمال کرچکے ہوتے ہیں وہاں بیٹھ کر ایک آئیڈیل سماج قائم کرنے کا بھاشن دینا شروع کردیتے ہیں۔
ان پاکستانیوں میں سے بہت ہی کم ایسے ہیں جو اپنی کمائی کا کچھ حصہ پاکستان میں عزیز اقارب کو بھیجتے ہیں کیونکہ ان کے اہل و عیال ان کے ساتھ انہی ممالک میں ہوتے ہیں لہذا انھیں پاکستان رقوم بھیجنے کی ضرورت ہی نہیں ہوتی۔ان میں ایک اچھی بڑی تعداد توان پاکستانیوں پر مشتمل ہے جو کم و بیش دوتین نسلوں سے ان ممالک میں رہ رہےہیں اوران کا پاکستان واپس آنے کا قطعاً کوئی ارادہ اورامکان نہیں ہے۔
پاکستانیوں کی یہ قسم پاکستان بارے ناسٹلجیا کا شکار ہے۔اس قبیل کے پاکستانی رہنا تویورپ کے سیکولر اور جمہوری ماحول میں چاہتے ہیں لیکن پاکستان میں ریاست مدینہ،اسلامی نظام اورخلافت راشدہ کے قیام کے خواہاں ہیں۔ پاکستان میں مذہبی سیاسی جماعتوں،ختم نبوت کی داعی تنظیموں، دینی مدارس اور مساجد کی تعمیر و توسیع کے لئے فنڈز مہیا کرنے والوں میں یورپ امریکہ اور کنیڈا میں رہنے والی پاکستانیوں کی یہ قسم پیش پیش رہتی ہے۔ ان پاکستانیوں کو پاکستان کے زمینی حقایق کا کچھ علم نہیں ہے اور اگر کچھ کو ہے تو وہ بہت سطحی اور مسخ شدہ ہے۔وہ جمہوری ممالک میں رہ کر خلافت کے قیام کے خواب دیکھتے اور خود کو اہل ایمان میں شمار کرتے ہیں۔
اگر انھیں کہا جائے کہ آپ پاکستان واپس آکر اپنی خواہشات کے مطابق سماج و حکومت بنانے کے لئے جدوجہد کریں تو وہ کانوں کو ہاتھ لگا کر واپس آنے سے انکار کردیتے ہیں۔ ان پاکستانیوں کا پاکستان سے کوئی مادی مفاد وابستہ نہیں ہے ماسوائے اپنے ڈرائینگ رومز میں بیٹھ پاکستان میں اپنے گذرے ماضی کو یاد کرنا اور اس کے لئے آہیں بھرنا اور یہ سب اس شرط کے ساتھ کہ واپس پاکستان کبھی نہیں جانا حتی کہ مرکر بھی وہیں دفن ہونا ان کی ترجیح ہے۔
ان پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینے کا مطلب پاکستان میں رجعتی اور پسماندہ فکر کی حامل سیاسی جماعتوں اور شخصیات کو مضبوط و توانا کرنا ہے۔ ان کا ووٹ کبھی روشن خیال، جمہوری اور انکلوسو سوچ و فکر کی حامل سیاسی جماعتوں کو نہیں ملے گا۔عمران خان چونکہ ان کے فکر ونظر کے قریب ہے اس لئے وہ اس کو گلوریفائی کرتے ہیں اور وہ ان کو ووٹ کا حق دلانے میں بہت سرگرم ہے۔
سمندر پار پاکستانیوں کی دوسری قسم ان پاکستانیوں پر مشتمل ہے جو مشرق وسطی کے ممالک میں مقیم ہیں۔ ان کی اکثریت جسمانی محنت کرنے والوں، ہنر مندوں اورہمہ قسم کے پروفیشنلز پر مشتمل ہے۔ ان میں سے اکثریت کے اہل وعیال پاکستان کے شہروں قصبوں اور دیہاتوں میں رہتے ہیں یہ سال بہ سال انھیں ملنے کے لئے پاکستان آتے ہیں اور اپنے بیوی بچوں اور ماں باپ کو باقاعدگی سے رقوم بھیجتےہیں۔ یہ محنت کش پاکستانی عارضی طور پر مشرق وسطی کے تیل پیدا کرنے والوں میں ممالک میں مقیم ہیں جوں ہی ان کا معاہد ہ ختم ہوتا ہے وہ واپس پاکستان آجاتے ہیں۔
کرونا وبا کے دوران بلا مبالغہ ہزاروں پاکستان محنت کش جو مشرق وسطی میں مقیم تھے بے روزگار ہونے کی بنا پر وطن واپس آگئے ہیں جب کہ یورپ امریکہ اور کنیڈا سے واپس آنے والے پاکستانیوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے بلکہ جو یہاں آئے ہوئے تھے وہ بھی فی الفور واپس جانے کے لئے بے چین و بے قرار تھے ۔ مشرقی وسطی میں مقیم ان پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینا ایک جائزاور مناسب اقدام ہے۔ یہ وہ پاکستانی ہیں جن کا مفاد پاکستان سے وابستہ ہیں جنھوں نے آپ اور ان کے بچوں نے پاکستان ہی میں رہنا ہے۔وہ اپنا پیٹ کاٹ کر اپنی بچتیں پاکستان اپنے اہل خانہ کو بھیجتے ہیں۔ ان کاوہاں کوئی سٹیک نہیں ہے ان کے تمام سٹیکس پاکستان میں ہیں۔
♥
One Comment