لیاقت علی
جوگندر ناتھ منڈل((1904-1968 پاکستان کے لبرل سیاسی بیانیہ کا اہم کردار ہے۔ جناح کو سیکولر، روشن خیال اور مذہب کے نام پر سیاست سے لا تعلق ثابت کرنے کے لئے لبرل دانشورمنڈل کا حوالہ دینا لازم خیال کرتے ہیں۔جوگندر ناتھ منڈل کو جناح او ر حسین شہید سہروردی کا قریبی ساتھی اور مسلم لیگ کی سیاست کا حامی ثابت کیا جاتاہے۔
پاکستان کی سرکاری تاریخ میں منڈل ابتدائی تین سالوں تک ہی نظر آتے تھے اس کے بعد وہ کہاں گئے اور کیوں گئے اس بارے میں سرکاری مورخ خاموش ہیں۔ منڈل کو پاکستان کے آئین ساز اسمبلی کے افتتاحی اجلاس کا صدر نامزد کیا گیا تھا اور بعدازاں پہلی وزارت میں انھیں قانون اور محنت کے محکمے دیئے گئے تھے۔ منڈل آل انڈیا مسلم لیگ کا تنظیمی طورپر کبھی حصہ نہیں رہے تھے۔وہ بھارت کے دلت رہنما اور بھارتی آئین کے خالق بابا صاحب امبیدکر کے ساتھی تھے۔ انھوں نے بنگال میں شیڈول کاسٹس فیڈریشن بنائی تھی اور اسی کے پلیٹ فارم سے وہ انتخابات میں حصہ لیتے اور سیاست کرتے تھے۔
منڈل کی شخصیت اور سیاست کو سمجھنے کے لئے متحدہ ہندوستان میں بنگال کی سیاست کو سمجھنا ضروری ہے۔منڈل کانگریس کو اعلیٰ ذات کی ہندو اشرافیہ کے مفادات کی ترجمان سیاسی جماعت سمجھتے تھے اور ان کے نزدیک کانگریس کی سیاست دلتوں کے مفادات سے متصادم تھی۔ وہ مسلمانوں کو اقلیت سمجھتے ہوئے وزارت سازی میں مسلم لیگ کا ساتھ دیتے تھے اور صوبائی مخلوط وزارت سازی میں ان کی جماعت شیڈول کاسٹس فیڈریشن کا رول اہم اور فیصلہ کن تھا۔
بھارت میں حال ہی میں منڈل کے بارے میں ایک کتاب شایع ہوئی ہے۔ کتاب کا نام ہے: جوگندر ناتھ منڈل اور پاکستان میں دلت سیاست۔ ڈاکٹرڈیویپائن سین کی لکھی اس کتاب میں تقسیم سے قبل اور بعد ازاں پاکستان میں منڈل کی سیاست کا تجزیہ کیا گیا ہے۔مصنف کا کہنا ہے کہ منڈل نے حسین شہید سہروردی اور خواجہ ناظم الدین کے اشتراک سے بنگال میں دلتوں اور مسلمانوں کا مضبوط کانگریس مخالف اتحاد قائم کیا تھا۔
ڈاکٹرسین کہتے ہیں کہ قیام پاکستان کے بعد اس اتحاد کی ضرورت نہیں رہی تھی کیونکہ مسلمان اقلیت اب مسلمان اکثریت میں تبدیل ہوچکی تھی اور دلتوں کی مشرقی بنگال کی سیاست میں کوئی اہمیت اور ضرورت نہیں رہ گئی تھی جس کی وجہ منڈل پاکستان کی سیاست میں بالعموم اور مشرقی بنگال کی سیاست میں غیر متعلق ہوگئے تھے۔مسلم لیگ کو اب وزارت سازی کے لئے منڈل کی شیڈول کاسٹس فیڈریشن کی کوئی ضرورت نہیں رہی تھی۔قیام پاکستان کے بعد زمینی حقایق کے تبدیل ہونے کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ جناح جنھوں نے منڈل کو پاکستان کا پہلا وزیر قانون نامزد کیا تھا، نے ان کی درخواست پر مشرقی بنگال کابینہ میں کسی دلت کو وزیر نامزد کرنے پر کوئی توجہ نہیں دی تھی۔
ڈاکٹر سین کے مطابق منڈل نے کبھی یہ نہیں سوچا تھا کہ پاکستان ایک حقیقت کا روپ دھار سکتا ہے۔ منڈل کا خیال تو یہ تھا کہ مطالبہ پاکستان دراصل کانگریس سے مختلف مذہبی اقلیتوں کے لئے زیادہ سے زیادہ مراعات کے حصول کے لئے سودے بازی کے طورپر کیا جارہا ہے۔چنانچہ جب پاکستان بن گیا تو ان کو یہ سمجھ نہیں آرہی تھی کہ اب یہاں کیسے اور کس طرح سیاست کی جائے۔
ڈاکٹر سین نے پاکستان کی سیاست اور حکومت سے منڈل کی مایوسی پر بھی اپنی کتاب میں روشنی ڈالی ہے۔ان کا کہنا ہے کہ منڈل کو جناح پر پورا بھروسہ تھا کہ وہ اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ کریں گے۔ پاکستان میں رہتے ہوئے متعدد مواقعوں پر اور وفاقی وزارت سے اپنے استعفی میں انھوں نے اپنے مایوسی کا بھرپور انداز میں اظہار کیا تھا۔ ان کے استعفی کو سین کے مطابق پاکستان اور بھارت میں مختلف انداز میں پڑھا اور سمجھا گیا۔ پاکستان میں اس کے بارے میں کہا گیا کہ ہندو کبھی پاکستان کا وفادار نہیں ہوسکتا اور بھارت میں اس سے یہ مطلب لیا گیا کہ پاکستان میں ہندو نہ صرف مساوی شہری کے حقوق حاصل نہیں کرسکتے بلکہ ان کے جان ومال کا تحفظ بھی نہیں ہوسکتا۔
قیام پاکستان کے تین سال بعد1950 منڈل مایوس اور بددل ہوکر واپس کلکتہ چلے گئے جہاں جا کر انھوں نے ایک بار پھر سیاست سرگرمیوں میں حصہ لینا شروع کیا ور ریاستی اسمبلی کے انتخابات میں حصہ بھی لیا لیکن وہ کامیاب نہ ہوئے اور 1968 میں کلکتہ میں ان کا انتقال ہوگیا تھا
٭٭