پائندخان خروٹی
جب تک کمیونیکیشن کے سرچشمے اور نصاب بنانے کے اختیارات زردار اور زور دار کے کنٹرول میں ہوں اُس وقت تک ذہنی نشوونما اور انسانی عقل کی بالادستی قائم کرنے کا خواب، خواب ہی رہیگا، پولیٹیکل اکانومی پر مسلط عناصر کا قبضہ چھڑانے کیلئے ضرور ہے کہ تمام سیاسی سرگرمیوں اور ریاستی پالیسیوں کو مفاد خلق , رائے عامہ اور معاشی برابری کے قوانین کا پاپند بنایا جائے تاکہ تمام علوم و فنون اپنے معیار تک پہنچ سکیں۔
یہ بات بہت واضح ہے کہ ہر حکومت، مذہب، نظريہ یا ادارہ جس کو معاشرے کی عظیم اکثریت کی تائید و حمایت حاصل نہیں وہ اپنے وجود کو قائم رکھنے کا اخلاقی جواز بھی کھو بیٹھتا ہے کیونکہ مفاد خلق سے ہم آہنگی اور مطابقت پیدا کیے بغیر ریاستی یا ریاست کے زیر اثر مذہبی سطح پر بنائی جانے والی کوئی بھی پالیسی یا حکمت عملی کامیابی سے ہمکنار نہیں ہو سکتی، انسانی تاریخ گواہ ہے کہ جنہوں نے بھی دولت اور طاقت کے نشے میں عوامی شعور و بیداری اور اظہارِ رائے کی راہ میں رکاوٹ بنے کی کوشش کی وہ عوامی سیلاب میں خس و خاشاک کی طرح بہہ گئے۔
لہٰذا سیاسی خلقی شعور کا تقاضہ ہے کہ فکر و قلم کی آزادی پر قدغن لگانے، اولسی علم و شعور پر دروازے بند رکھنے اور “پبلک وِل” پر اپنا بیانیہ مسلط کرنے سے بہتر ہے کہ عوامی رائے سے فوری طور پر مطابقت پیدا کیا جائے ورنہ رزق اور علم کے سرچشموں پر تالے لگانے والوں کو خلقی رنگ میں بدلتے وقت دیر نہیں لگتی، دنیا میں ترقی یافتہ اور پسماندہ اقوام کے فرق کو واضح کرنے کیلئے اُن کے ہاں مکالمے کے نافذ العمل نظام کے تناظر میں بھی پرکھا اور سمجھا جا سکتا ہے۔
تہذیب یافتہ اقوام ڈائیلاگ، معاملہ فہمی، تنازع کا پُرامن حل نکالنے، فریقین کو عقلی دلائل کے ذریعے منطقی انجام تک پہنچانے، اتفاق رائے پیدا کرنے اور درست استدلال اختیار کرنے کی شاندار اقدار و روایات کے آمین ہیں، تہذیب یافتہ معاشروں میں نیا سوال اُٹھانے اور علمی اختلاف رکھنے کو احسن اقدام قرار دیا جاتا ہے، اپنا موقف رکھنے والے کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے، فکری اختلاف اور نئے حقائق کی تلاش کو تخلیقی و تعمیری طرز فکر کا درجہ دیا جاتا ہے، سیاسی فورمز اور علمی مراکز میں ٹھوس شواہد کے ساتھ مقدمہ پیش کیا جاتا ہے، کسی دعویٰ کو غلط یا صحیح ثابت کرنے کیلئے معقول اور مدلل باتوں کا سہارا لیا جاتا ہے، دلیل کے مقابلے نیا دلیل قائم کرنے کیلئے درست استدلال پیش کرنے کا طریقہ اپنایا جاتا ہے۔ اس پورے پروسس میں علم المنطق کے قوانین اور مختلف فلاسفرز کے بلند افکار و خیالات سے مدد اور رہنمائی لی جاتی ہے۔
اس طرح حقیقت کی تلاش کا سفر نہ صرف آگے بڑھتا ہے بلکہ سچ کی بالادستی قائم کرنے کے روشن امکانات پیدا ہو جاتے ہیں، واضح رہے کہ آج کی اس ترقی یافتہ دور میں بھی ہر جگہ بورژوا حکمرانوں اور مذہبی پیشواؤں سے اظہارِ رائے کی آزادی اور معاشی خودمختاری کے حوالے سے معاشرے کی عظیم اکثریت نالاں نظر آتی ہے، فیصلے صادر کرتے اور پالیسیاں تشکیل دیتے وقت عوامی حقوق واختیارات کی پاسداری نہیں کی جاتی، مذہبی اُمور میں صرف پہلے سے طے شدہ روایات پر عملدرآمد کیلئے لوگوں کو مجبور کیا جاتا ہے، فرقہ وارانہ مناظروں میں حکمرانوں اور اپنے مسلک کو تنقید سے بالاتر رکھے جاتے ہیں، مناظروں میں تو مکالمے اور مباحثے نہیں بلکہ ایک دوسرے پر فتوے اور ٹھپے لگائے جاتے ہیں، یہ بات یقین کے ساتھ کی جاسکتی ہے کہ فرقہ وارانہ مناظرہ ایک لاحاصل بحث ہے۔
اس ضمن میں ضروری ہے کہ معاشرے کے مختلف طبقات کے درمیان پائی جانے والی کشمکش کو ختم کرنے کیلئے ریاستی سطح پر ڈائیلاگ کا اہتمام کیا جائے، مختلف مکتب فکر کے مابین تعصبات اور غلط فہمیوں کو رفع کرنے کیلئے حُب دانش کے تحت اتفاق رائے پیدا کیا جا سکتا ہے، حاکم اور محکوم کے رشتے کے خاتمے کیلئے بالادست طبقہ اور زیردست اقوام کے درمیان گرینڈ ڈیبیٹ کے انعقاد سے مدد لی جا سکتی ہے، مذہبی جنونیت سے بچنے کی خاطر ڈائیلاگز میں پورے سماج کی شراکت بہت ضروری ہے، گویا ڈائیلاگ کا ریاستی، قومی اور اکیڈمک سطح پر بقائے باہمی، باہمی افہام و تفہیم، رواداری اور عقل کی بالادستی کو مستحکم بنانے میں اہم کردار ہے، ڈائیلاگ دراصل دو یا دو سے زیادہ افراد، فریقین یا طبقات کا آپس میں ہم کلام ہونے یا گفتگو کے ذریعے اختلاف رائے کو حل کرنے کا ایک جدلیاتی عمل ہے،۔
اس جدلیاتی عمل میں دو متصادم نقطہ ہائے نظر کو استدلال/دلیل کے ذریعے متفقہ نتیجے تک پہنچنے کی شعوری کاوش کی جاتی ہے، اس پورے عمل میں جدلیاتی فلسفہ کے اصول کے عین مطابق ٹکراؤ یا مفاہمت ڈائیلاگ کو ایک نئے نتیجہ پر پہنچاتا ہے، واضح رہے کہ ڈائیلاگ زبانی یا تحریری، دونوں شکلوں میں ہو سکتا ہے، لہٰذا علمی اور سیاسی ڈائیلاگ کے پروسس پر قدرت حاصل کرنے کیلئے ڈائیلاگ کے بنیادی اصولوں سے واقفیت ضروری ہے تاکہ ڈائیلاگ میں حصہ لینے والوں کا انداز دانشورانه، فلسفیانہ اور عالمانہ بن جائے، یونانی فلاسفرز کے ڈائیلاگ، لوجیک، خطابت اور فلاسفی کے حوالے سے بتائے گئے اصولوں اور طریقوں سے بھرپور استفادہ کیا جا سکتا ہے۔
اُن یونانی اصولوں کی روشنی میں ایک ایسا علمی طرز فکر اختیار کرنا جو علم عقل سے مطابقت رکھتا ہو، کو لوگوز ، عوامی اعتماد حاصل کرنے کیلئے اپنا قابلِ اعتماد کردار و وقار کے قائم رکھنے کو ایتھوز ، زندگی کے اُمور و معاملات میں اجتماعی طرز فکر اپنا کر عوام کا ہمدرد بننے کو پھیتوز اور اپنے قول و فعل میں زمان و مکان کی مناسبت سے مکالمہ کے سلسلہ کو آگے بڑھانے یا روکنے کو کیروز اور پروٹوز کہتے ہیں، مندرجہ بالا پانچ پوائنٹس میں سے ہر ایک پوائنٹ کی اپنی اہمیت ہے اور کسی ایک پوائنٹ کو نظر انداز کرنے سے مکالمہ، گفتگو، تقریر، مباحثہ یا خطبہ ایک غلط موڑ بھی اختیار کر سکتا ہے۔
ذہن نشیں رہے کہ ذخیرہ الفاظ سے زیادہ گرجدار آواز، دلکش انداز گفتگو، متاثرکُن لب و لہجہ، کرشماتی شخصیت اور سائنسی طرزِ فکر و عمل کے مثبت نتائج برآمد ہوتے ہیں، نئی نسل کے اذہان کو جدید علمی جہاں بینی سے روشن کرنے ، فکری غلطی سے بچنے، آزادانہ بحث و مباحثوں کی بنیاد رکھنے، نئے سوال وتنقید کرنے کی جرآت دینے اور سائنس وفلسفہ سے آشنائیت پیدا کرنے کے حوالے سے صوبائی دارالحکومت کوئٹہ میں کریٹکل گروپ آف ڈسکشن (سی جی ڈی) پچھلے تین چار سالوں سے اپنی خدمات سرانجام دے رہا ہے تاکہ ایک صحت مند مکالماتی ماحول کو پروان چڑھا کر خرافات وتوہمات کا خاتمہ ممکن ہو سکیں، اب تک ایک سو آٹھاسی کے قریب سٹڈی سرکلز کا اہتمام کیا جاچکا ہے، سی جی ڈی کے کئی نوجوان پشتو، اردو اور انگلش میں مختلف موضوعات پر لکھ بھی رہے ہیں، اس اُمید کے ساتھ کہ سی جی ڈی کی یہ چھوٹی سی کاوش مستقبل قریب میں ایک تھنک ٹینک کی شکل اختیار کریں۔
ترقی یافتہ سماج میں اختلافِ رائے کیلئے احترام پیدا کرنا ایک خوش آئند عمل ہے کیونکہ سماج میں ہر فرد کو نیا سوال کرنے، تنقیدی جائزہ لینے اور غیر روایتی انداز میں سوچنے کی آزادی کی پاسداری کی جاتی ہے جسکی وجہ سے علم و شعور کے دروازوں پر تالے نہیں لگائے جاتے جبکہ پسماندہ معاشرے میں اختلاف رائے رکھنے والوں کو نافرمان اور گستاخ کہا جاتا ہے کیونکہ وہاں ہر کوئی اپنے رجعتی فکر پر مبنی علم کو ہی صحیح علم قرار دیتا ہے جسکے نتیجے میں جدت اور جدیدیت کا دریچہ بند رہتا ہے۔
حکمران، مذہبی پیشواء اور نالائق افراد ہمیشہ تنقید اور سوال اٹھانے والے کو ستاتے اور رُلاتے ہیں، یہ انسان کا تبدیلی طلب مزاج ہے جو تقلید و تکرار سے اُکتا جاتا ہے، اپنے فکر و عمل میں تازگی لانے کیلئے تحقیق و تلاش کو جاری رکھتا ہے، ہر دم جدت کی تلاش میں رہنے کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ انسان اُکتاہٹ اور بورڈم سے آزاد رہتا ہے، مترقی انسان ہر منزل پانے کے بعد رکتا نہیں بلکہ اپنی دوسری منزل کی جانب اپنے قدم آگے بڑھاتا ہے، علم وادب کے راز و نیاز کے دوران ڈائیلاگ معلوم سے نامعلوم، آسان سے پیچیدہ اور مثالوں سے قوانین کی جانب سفر کا معتبر وسیلہ ہے۔
ڈائیلاگ تہذیب سے وابستگی کی علامت ہے، علم ودانش کا حُسن ہے، حقیقت کی تلاش کیلئے غوروفکر موثر ذریعہ ہے، آئیے آج یہ عہد کریں کہ ہم سب ڈائیلاگ کے عمل کو سچ کی بالادستی قائم کرنے، فکری پسماندگی کے خاتمے اور مذہبی جنونیت کو شکست دینے کیلئے بطور ہتھیار استعمال کریں گے،۔
♣