سوشل میڈیا پر پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے دستخطوں سے جاری ہونے والا ایک لیٹر گردش کررہا ہے۔ لیٹر کے مطابق شاہ محمود قریشی نے امریکہ میں پاکستانی سفیر اسد مجید خان کی کھچائی کرتے ہوئے کہا ہے کہ آپ سفارتی ذمہ داریوں کو بخوبی ادا کرنے میں ناکام رہے ہیں کیونکہ آپ ،صدر بائیڈن اور وزیراعظم عمران خان کے درمیان کوئی رابطہ نہیں کروا سکے حالانکہ پاکستان نے افغانستان کے حوالے سے ایک اہم کردار ادا کیا ہے۔ پاکستان کی ایمبیسی، حکومت پاکستان کی ان کاوشوں کو موثر طور پر وائٹ ہاؤس کے سامنے پیش نہیں کر سکی وغیرہ وغیرہ۔
اب یہ خط درست ہے یا غلط اس پر کوئی رائے نہیں دے سکتا۔ لیکن اس سلسلے میں رونما ہونے والے کچھ واقعات پر نظر ڈال لیتے ہیں۔
ایک بات طے ہے کہ پاکستان اس وقت شدید سفارتی تنہائی کا شکار ہے۔ پاکستان پر دہشت گردوں کی حمایت کرنے اور انہیں محفوظ پناہ گاہ مہیا کرنے پر مالی پابندیوں کا سامنا ہے۔
کوئی پانچ سال پہلے وزیراعظم نواز شریف نے پاکستان کی سیکیورٹی کونسل کے اجلاس میں جرنیلوں کے سامنے میں ایک سوال اٹھایا تھا کہ پاکستان دہشت گرد تنظیموں کی کاروائیوں کی وجہ سے دنیا میں سفارتی تنہائی کا شکار ہوچکا ہے لہذاوقت آگیا ہے کہ ان کے خلاف کاروائی کی جائے تو آئی ایس آئی کی چیف نے کہا تھا کہ جناب آپ ملک کے وزیراعظم ہیں ان کے خلاف کاروائی کریں ہم آپ کے ساتھ ہیں۔ تو انہیں جواب دیا گیا کہ جب بھی ان تنظیموں کے خلاف کوئی کاروائی کی جاتی ہے تو آپ (آئی ایس آئی) انہیں چھڑوا لیتے ہیں۔اس گفتگو کا ذکر سرل المیڈا نے روزنامہ ڈان میں لکھ دیا جسے ڈان لیکس کا نام دیا گیا تھا۔ اور اس پر کافی شور و ہنگامہ ہوا تھا۔عمران خان اور یوتھیوں نے نواز شریف کو غداری کا سرٹیفیکٹ دے دیا تھا۔
کوئی پانچ ماہ قبل وزیراعظم عمران خان، بیرون ملک پاکستانی سفیروں سے آن لائن خطاب کرتے ہوئے ان پر برس پڑے تھے اور ان کی کھچائی کرتے ہوئے کہا تھا کہ ایک تو آپ وہاں پاکستانی کمیونٹی کے کوئی کام نہیں کرتے اور دوسرا یہ کہ آپ کی نسبت بھارتی ایمبسیاں زیادہ بہتر کام کرتی ہیں۔ آپ کا کام بیرونی سرمایہ کار کو پاکستان لانا ہے، اگر بھارتی ایمبیسیاں یہ کام کر سکتی ہیں تو آپ کیوں نہیں کر سکتے۔
وزیراعظم عمران خان کے ان الزامات کا جواب وزارت خارجہ کی سابقہ سیکرٹری اورسفیر محترمہ تسنیم اسلم نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ عمران خان کی طرف سے سفیروں پر الزام لگانا درست نہیں ہے۔ سفیر کا کام حکومت پاکستان کی پالیسیوں کی وضاحت کرنا اور اس کی روشنی میں کام کرنا ہوتا ہے اگر حکومت پاکستان بیرونی سرمایہ کاروں کو ترغیب دینے کے لیے کوئی پالیسی بنانے میں ناکام رہی ہے تو اس میں وزارت خارجہ یا سفیروں کا کیا قصور ہے۔ ملک میں امن و امان کی صورتحال انتہائی خراب ہے، توانائی کا بحران ہے، اور دہشت گردوں کی حمایت کرنے کی وجہ سے پاکستان پر فیٹف کی پابندیاں لگی ہوئی ہیں اور سب سے بڑھ کر پاکستانی ریاست کی کوئی طویل المدتی پالیسی ہی کوئی نہیں۔ ان حالات میں کون غیر ملکی سرمایہ کار پاکستان میں سرمایہ کاری کا سوچے گا۔ وغیرہ وغیرہ
پھر کوئی دو ماہ پہلے پاکستان کے نیشنل سیکیورٹی ایڈوائزر معید یوسف امریکہ تشریف لائے اور بھری پریس کانفرنس میں گلہ کیا کہ صدر بائیڈن جب سےصدر منتخب ہوئے ہیں انھوں نے وزیراعظم عمران خان کو کوئی کال نہیں کی۔ اب اس بیان پر بھی کافی مذاق اڑایا گیا اور اب تک مذاق اڑایا جاتا ہے۔
کوئی ایک ماہ پہلے جب عمران خان نے طالبان کی افغانستان پر قبضے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ طالبان نے غلامی کی زنجیریں توڑ دی ہیں تو این پی آر ریڈیو نے پاکستان کے سفیر اسد مجید خان سے اس بابت سوال کیا تو اسد مجید خان پہلے تو گڑبڑا گئے اور پھر سنبھل کر کہا کہ ایسا نہیں ہے ان کے بیان کا پس منظر کچھ اور تھا، ویسے بھی یہ بیان بھارتی ٹی وی نے نشر کیا۔
میں نے پہلے بھی لکھا تھا کہ اسد مجید خان وزارت خارجہ کے انتہا ئی پڑھے لکھے قابل افسر ہیں لیکن ان کا المیہ یہ ہے کہ پاکستانی ریاست کی بے ہنگم پالیسیوں اور وزیراعظم کی بونگیوں کا دفاع کرنا پڑتا ہے اور پھر پاکستانی ریاست اپنی ناکامیوں کا ذمہ دار سفیروں کو قرار دیتی ہے۔
اب محب الوطن صحافیوں اور تجزیہ نگاروں کی طرف سے اپنی ناکامیوں کا ذمہ دار بھارت یا بھارتی لابی کو قراردینا سمجھ نہیں آتا۔ ویسے بھی پاکستانی ریاست کے پاس تمام الزامات کا ایک ہی جواب ہوتا ہے کہ سب کچھ بھارت کروا رہا ہے۔
شعیب عادل