ایک ایسے وقت میں جب پاکستان دہشت گردوں کی حمایت کرنے اور انہیں محفوظ پناہ گاہیں فراہم کرنے کی وجہ سے بین الاقوامی پابندیوں (فیٹف) کا شکار ہے اور جبری طور پر تبدیلی مذہب کے حوالے سے، پارلیمنٹ کی قائمہ کمیٹی کی جانب سے بل کو مسترد کر کے عالمی برادری کو اچھا پیغام نہیں دیا گیا۔
جبکہ پاکستان کی اقلیتی برادری نے جبری طور پر تبدیلی مذہب کے حوالے سے بِل کو مسترد کیے جانے پر اظہار افسوس کیا ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ حکومت نے ایسا مذہبی قوتوں کو خوش کرنے کے لیے کیا ہے۔
واضح رہے کہ اس بل کو بدھ 13 اکتوبر کو ملکی پارلیمنٹ کی قائمہ کمیٹی نے مسترد کیا تھا، جس میں وفاقی وزیر مذہبی امور نورالحق قادری نے بھی شرکت کی تھی۔ اس بل کو پہلے اسلامی نظریاتی کونسل نے بھی مسترد کر دیا تھا اور زیادہ تر اراکین کا خیال تھا کہ یہ غیر اسلامی ہے۔
اس بل کے مسودے میں یہ تجویز کیاگیا تھا کہ جو شخص اپنا مذہب تبدیل کرنا چاہتا ہے اس کی کم از کم عمر کی حد 18 سال ہونی چاہیے اور یہ کہ اس شخص کو سیشن کورٹ کے جج کے سامنے یہ بیان دینا ہوگا کہ وہ کسی زور زبردستی کے بغیر اپنی خوشی سے مذہب تبدیل کر رہا ہے یا کر رہی ہے۔ بل میں یہ بھی تجویز کیا گیا تھا کہ مذہب تبدیل کرنے والے شخص کو تقابل ادیان کا مطالعہ کرنے کا وقت دیا جائے۔ مذہبی جماعتوں نے اس بل کی شروع سے ہی مخالفت کی ہے اور وہ اس کو غیر اسلامی قرار دیتی ہیں۔
پاکستان ہندو فورم کے صدر ڈاکٹر جے پال چھابڑیا کا کہنا ہے کہ یہ انتہائی افسوس ناک بات ہے کہ اراکین پارلیمنٹ اس بات سے ہی انکاری ہیں کہ جبری طور پر تبدیلی مذہب کا مسئلہ ملک میں موجود ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ”اس بل کو مسترد کیے جانے پر پوری ہندو کمیونٹی اور اقلیتی برادری مایوس ہوئی ہے اور اس بات کا بھی افسوس ہے کہ ماضی میں عمران خان نے خود اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ ہندو برادری کو جبری تبدیلی مذہب کا سامنا ہے لیکن اب ان کے اراکین پارلیمنٹ اس بات سے انکار کر رہے ہیں، جبکہ انسانی حقوق کی تنظیمیں یہ کہہ رہی ہیں کہ سالانہ تقریباً ایک ہزار کے قریب جبری تبدیلی مذہب کے واقعات ہوتے ہیں۔‘‘۔
ڈاکٹر جے پال کا کہنا ہے، ” اراکین پارلیمنٹ کو یہ بات سوچنی چاہیے کہ صرف نوعمر ہندو لڑکیاں ہی کیوں مذہب تبدیل کر رہی ہیں اور یہ کہ مذہب کی تبدیلی کے فوراً بعد ان کی شادی کیوں ہو جاتی ہے؟ مزید برآں چالیس یا پچاس سال کی عمر کی ہندو عورتیں مذہب تبدیل کیوں نہیں کرتیں اور ہندو مردوں میں یہ رجحان کیوں نہیں ہے؟
ان کا مزید کہنا تھا کہ اس بل کو مسترد کر کے حکومت نے صرف مذہبی قوتوں کو خوش کرنے کی کوشش کی ہے: ”افسوس کی بات ہے کہ نہ صرف پی ٹی آئی نے ایسا کیا بلکہ پاکستان پیپلز پارٹی نے بھی سندھ اسمبلی میں پہلے جبری تبدیلی مذہب کے حوالے سے قانون بنایا اور پھر مولویوں کے پریشر کی وجہ سے اس قانون کو روک دیا۔ سیاسی جماعتوں کے اس رویہ کی وجہ سے ملک کی اقلیتی برادری میں مایوسی پھیل گئی ہے اور وہ احساس بیگانگی کا شکار ہو رہے ہیں۔‘‘۔
لاہور سے تعلق رکھنے والے اقلیتی برادری کے رکن پیٹر جیکب کا کہنا ہے کہ 13 اکتوبر کا دن پاکستان کے لیے ایک سیاہ ترین دن ہے جب اراکین اسمبلی نے ایک ایسے بل کو مسترد کر دیا جو پاکستان میں کم سن بچیوں کی تحفظ کی ضمانت میں معاون ہو سکتا تھا۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا: ”یہ بڑی افسوسناک بات ہے کہ جس بل کی تیاری میں دو سال سے زائد کا عرصہ لگا، اس بل کو حکومت نے اس لیے مسترد کر دیا کہ کچھ لوگوں نے جلسے جلوسوں کی دھمکی دی تھی اور مذہب کے سیاسی استعمال کا اشارہ دیا تھا۔ اس بل کو مسترد کیے جانے سے یہ بات صاف ظاہر ہے کہ ہمارے اراکین اسمبلی کو کم سن بچیوں کے تحفظ کے حوالے سے کوئی فکر نہیں بلکہ ان کو فکر ان چند عناصر کی ہے جو اپنے سیاسی مقاصد کے لیے مذہب کو استعمال کرتے ہیں‘‘۔
پیٹر جیکب کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان میں اقلیتوں کی آبادی تین فیصد سے کچھ زیادہ ہے اور اگر حکومت اقلیتوں کو تحفظ فراہم نہیں کر سکتی تو وہ مزدوروں، کسانوں، خواتین اور بچوں کی بڑی تعداد کو کیسے تحفظ فراہم کریں گی۔
تھرپارکر سے تعلق رکھنے والی ہندو کمیونٹی کی رہنما رادھا بھیل کا کہنا ہے کہ کہ اس بل کے مسترد کیے جانے سے بین الاقوامی برادری کو یہ پیغام جائے گا کہ پاکستان اقلیتی برادری کے حقوق کے تحفظ کے حوالے سے مخلص نہیں ہے: ”یہ بڑی حیرت کی بات ہے کہ ہمارے اراکین پارلیمنٹ اس بات سے ہی انکار کر رہے ہیں کہ ملک میں جبری تبدیلی مذہب کا کوئی مسئلہ ہے۔ اگر ملک میں اقلیتی برادری کے ساتھ مسائل نہیں ہیں تو پاکستان کو ہر بین الاقوامی فورم پر شرمندگی کا سامنا کیوں کرنا پڑتا ہے؟ ہمارا انسانی حقوق کے حوالے سے ریکارڈ کیوں اتنا برا ہے؟ دنیا کیوں اور کن حقوق کے حوالے سے ہم پر تنقید کرتی ہے؟ ہمارے اراکین پارلیمنٹ کو ان سارے پہلوؤں پر غور کرنا چاہیے تھا‘‘۔
dw.com/urdu & web desk