ظفر آغا
مسلم سماج میں آزادیٔ نسواں کی سخت ضرورت ہے اور اسلامی ممالک میں طالبان نہیں تونس ماڈل کی ضرورت ہے تاکہ مسلم ممالک اس دور کے نئے تقاضوں کے ساتھ کاندھے سے کاندھا ملا کر چل سکیں۔
افغانستان میں طالبان اقتدار میں آنے کے بعد سے جس طرح پیش آ رہے ہیں، وہ عالم اسلام کے لیے شرمناک بات تو ہے ہی، لیکن طالبان کے فیصلوں سے مسلم دشمن طاقتوں کو مسلمانوں کا مذاق اڑانے کا بھی موقع مل رہا ہے۔ بات بھی کچھ ایسی ہی ہے کہ ہر کوئی اس کا مذاق اڑائے گا۔
مثلاً اب کابل اور افغانستان کی تمام یونیورسٹیوں کے کلاس رومز میں لڑکے اور لڑکیوں کو ایک دوسرے سے الگ رکھنے کے لیے پردے ٹانگے گئے ہیں۔ اور جلد ہی کلاس رومز میں بیچ میں دیوار اٹھا دی جائے گی ور ٹیچر کو لڑکیاں دیکھ سکیں، اس کے لیے جالی بنائی جائے گی۔ ہے تو یہ بات مضحکہ خیز۔ اس اکیسویں صدی میں بھلا کون ہے جو اس بات پر ہنسے گا نہیں۔ اور تو اور خود ہندوستانی مسلمان اپنی بیٹیوں کو ایسی یونیورسٹی میں پڑھانے سے گریز کرے گا۔
ارے کل کو اگر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کابل یونیورسٹی کی طرح لڑکیوں کے ساتھ پیش آنے لگے تو لوگ اپنی بچیوں کو وہاں سے نکال لیں گے۔ لیکن نہیں صاحب، طالبان کا انوکھا اسلام یہ کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ ارے بھائی یہ کون سا اسلام ہے! طالبان خود اسلام کی تاریخ شاید بھول گئے۔
بانیٔ اسلام حضرت محمد کی پہلی بیوی حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا خود مکہ کی ایک اہم تاجر تھیں۔ رسول نے ان کی اس بات پر کبھی اعتراض نہیں کیا۔ خود رسول امہات مومنین سمیت مدینہ کی عورتوں کو میدان جنگ میں لے کر جاتے تھے جہاں ظاہر ہے کہ چاروں طرف مرد ہی مرد ہوتے تھے۔ خود قرآن نے عورتوں کو جو حقوق عطا کیے، اس سے واضح ہے کہ رسول کے دور کی عورت کو حضرت نے چہار دیواری میں قید کرنے کے بجائے ان کو طرح طرح سے ہر عمل میں خود مختار اور بااختیار بنایا تھا۔ لیکن اب طالبان عورتوں کے تمام اسلامی حقوق جس طرح روند رہے ہیں، اس سے مسلمان ساری دنیا میں بدنام ہو رہا ہے اور لوگ اسلام پر انگلی اٹھا رہے ہیں۔
حالانکہ ایسا نہیں کہ تمام اہل اسلام عورتوں کے ساتھ طالبان کی طرح پیش آتے ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ پچھلے چند سالوں میں خود عرب ممالک میں عورتوں کو بااختیار بنانے کی کوششیں ہوئی ہیں۔ ابھی پچھلے ہفتے تیونس میں ایک عورت ملک کی وزیر اعظم منتخب ہوئی ہیں۔ وہاں کے صدر قیس نے نجلا رمضان کو تیونس کا وزیر اعظم منتخب کر ساری دنیا کو محو حیرت کر دیا۔ یہ ایک تاریخ ساز قدم ہے، کیونکہ کسی بھی عربی زبان بولے جانے والے اسلامی ممالک میں تیونس پہلا ملک ہے کہ جہاں ایک عورت اتنے اہم عہدے پر فائز ہوئی ہیں۔
رمضان پیشہ سے انجینئر ہیں اور ابھی حال میں وہ ورلڈ بینک کے لیے کام کر رہی تھیں۔ لیکن ان دنوں تیونس ایک سیاسی بحران سے گزر رہا ہے۔ وہاں کے صدر قیس سعید نے کچھ عرصہ قبل تیونس کی پہلی جمہوری حکومت کو برطرف کر اقتدار کی کمان اپنے ہاتھوں میں لے لی۔ پچھلی حکومت پر بدعنوانی کے سخت الزامات تھے اور ملک میں حکومت کے خلاف لوگ سڑکوں پر تھے۔ تیونس میں پھیلی اس بے چینی کا فائدہ اٹھا کر حکومت کو برطرف کر دیا اور نجلا رمضان کو ملک کا وزیر اعظم منتخب کر دیا۔ صدر نے ان کو یہ اہم ذمہ داری سونپی ہے کہ وہ ملک سے جلد از جلد بدعنوانی کا خاتمہ کریں۔
تیونس کے اس تاریخ ساز فیصلے سے یہ واضح ہے کہ اب عالم عرب بھی عورتوں کو بااختیار بنانے کی راہ پر گامزن ہے۔ دراصل اس تبدیلی کی شروعات خود سعودی عربیہ سے ہوئی جہاں کے شہزادہ سلمان نے عورتوں کو نئے قانون بنا کر بہت حد تک بااختیار کیا۔ ابھی بھی سعودی عرب میں اس سلسلے میں بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ لیکن وہاں آزادیٔ نسواں کا کام شروع ہو چکا ہے۔ محض سعودی عرب یا تیونس میں ہی عورتوں کو بااختیار نہیں بنایا جا رہا ہے، بلکہ سوڈان میں وہاں کی وزیر دفاع ایک عورت ہے۔ اسی طرح لبنان کی وزیر خارجہ ایک عورت ہی ہے۔ لب و لباب یہ کہ عرب ممالک میں عورت خود کو بااختیار بنانے کی راہ پر گامزن ہے، اور سعودی عرب سے لے کر تونس تک ایک تبدیلی کی لہر چل رہی ہے۔
لیکن اس تبدیلی کا ذکر دنیا بھر کے میڈیا میں اس طرح سے نہیں نظر آتا ہے جیسے کہ طالبان کے ذریعہ عورتوں کے ساتھ بدسلوکی کا چرچہ رہتا ہے۔ عالمی میڈیا کو تو مسلمانوں کو منھ چڑھانے کا موقع چاہیے، اور جب سے طالبان برسراقتدار آئے ہیں تب سے ان کی حماقتوں سے مسلم دشمن عناصر کو مسلمانوں کو بدنام کرنے کا موقع مل گیا۔ مسلم سماج میں آزادیٔ نسواں کی سخت ضرورت ہے اور اس سلسلے میں تونس و سعودی عربیہ جیسے ممالک سے سبق لینے کی ضرورت ہے۔ اسلامی ممالک میں طالبان نہیں تونس ماڈل کی ضرورت ہے تاکہ مسلم ممالک اس دور کے نئے تقاضوں کے ساتھ کاندھے سے کاندھا ملا کر چل سکیں۔
روزنامہ قومی آواز، نیو دہلی