محترم چیف صاحب
السلام و علیکم
بعد سلام عرض ہے کہ میرے والد صاحب فوج میں نہیں بلکہ میرے والد کے والد اورپھرانکےوالد کوئی بھی فوج میں نہیں اورجتنا شجرہ نسب والدین نے متعارف کروایا اس میں کہیں کسی فوج میں بھرتی کا ذکر نہیں اسی لیے اپنی ” تلوار ” یعنی قلم تھاما اورآپ کو خط لکھنے کا ارادہ باندھ لیا . پشت درپشت سویلین ہونے کا سب سے بڑا فایدہ یہی ہے کہ ” ڈسپلن “کے نام پر انسان اپنی شخصی آزادی کا سودا نہیں کرتا سو یہ سودا میں نے نہیں کیا۔
محترم چیف صاحب عرض ہے کہ ایک عجیب و غریب خبر کی گُونج ہر طرف ہے کہ آپکی ہی برادری کے ایک ریٹایرڈ صاحب کے بیٹے نے آپ کو خط لکھا اور آپ پر تنقید کی اور سنا ہے کہ آپ نا راض ہو گئے یہ خبر ہی اِسقدر حیرت انگیز ہے کہ مزید تفصیل میں جانے میں مجھے کافی وقت لگا
پہلے تو یہ یقین ہی نہ آیا کہ جس ملک کے نام کے ساتھ ” جمہوریہ ” لگا ہے وہاں ” خط ” لکھنا بھی کوئی جرم ہوسکتا ہے تحریر سے اپنا مقصد بتانا ، تعریف کرنا یا تنقید کرنا تعلیم یافتہ معاشروں کی نشانی ہوتی ہےاور اپنی رائے مکمل آزادی سے کسی شخص یا ادارے تک تحریر و تقریر سے پہنچانا پہلا ” جمہوری حق ” جس سے نہ کوئی قانون روکتا ہے نہ آئین۔
مگر خبر کی تفصیل سے پتہ چلا کہ آنجناب کو حسن عسکری کے خط پر اعتراض تھا سو حسن پر فوجی عدالت میں مقدمہ چلا ، حسن کو بنیادی انسانی حقوق سے محروم رکھا گیا اور اِنکی مرضی کا وکیل ِصفائی فراہم نہ کیا گیا، میڈیا اور پریس کو اِس خبر پر خاموشی کا حکم یقیناً دیا گیا تھا ورنہ اینکر اور تجزیہ کار نامی مخلوق آزاد ہوتی تو اس مقدمے پر سات نہ سہی ایک شو تو ضرور کر گزرتی اور پھر بین الاقوامی خبر ایجنسی سے عوام کو اس “کورٹ مارشل “اور پانچ سال کی قید بامشقت کی خبر ملی جو صرف ایک “خط لکھنے کی سزا ” ہے۔
مزید آگے بڑھیں تو دیکھتے کیا ہیں کہ ایک عوامی نمایندہ جو عوام کے ووٹوں سے قومی اسمبلی میں آئین کا حلف اٹھا کر بیٹھا تھا اس آئین کا۔۔۔۔ جس کی قسم کھا کر آپ جان دینے کے وعدے کیے بیٹھے ہیں، اِس نمایندے کو خط لکھنے کی بھی مہلت نہ دی گئی بلکہ اِس نے تو صرف چند جلے کٹے جملے ہی ادا کیے تھے وہ بھی نہ کسی بین الاقوامی فورم پر نہ کسی غیر ملکی نشریاتی ادارے پر بلکہ اپنے جیسے نہتے عوام کے سامنے اپنے دل کا حال سنایا تھا۔وہ عوام جو اس نمائندے اورآپکو آپکی تنخواہ دیتے ہیں سو اگراپنے ہی “مالکوں ” کے سامنے کوئی اپنی دکھ بھری ِکتھا سنا کر ہمدردی حاصل کرتا ہے تو جناب والا یہ کونسا جرم ہے ؟؟
کون قتل ہوگیا تھا علی وزیر نام کے ممبر اسمبلی کی تقریر سے ؟ کس کا گھر بار جلا ؟ کون لُٹ گیا تھا چند الفاظ اور نعروں سے ؟ کہ علی وزیر آج تک جیل میں ہے اور کوئی عدالت ضمانت دینے کوبھی تیار نہیں کیونکہ آپ کا فرمان بابت منتخب ممبر وزیرستان جاری ہوا کہ ” توہینِ بسالت ” پر عوامی نمایندہ آپ سے معافی مانگے اور اپنے کیے پر شرمندہ ہو۔ مگر کیوں شرمندہ ہو ؟ کس بات کی معافی مانگے ؟ کیا اِ س ملک کے نام کے ساتھ ” اسلامی” نہیں لکھا اور بولا جاتا ؟ اور کیا قرآن میں اللہ تعالیٰ کا فرمان نہیں کہ ۔۔۔ “اللہ تعالیٰ بری بات کُھلم کھلا کہنا پسند نہیں کرتے،سوا ئے کسی مظلوم کے“۔ سورۃ النساء ١٤٨ ۔
اور کون ہوگا اس سے بڑھ کر مظلوم جسکا سارا خاندان دہشت گردی کا شکار ہوا اور اس نے بندوق نہیں اٹھائی مگراپنی تحریر و تقریرکی آزادی اوراپنے حلقے کےعوام کی ُپرامن آواز بننےکےلیے آئین پر قسم اٹھا لی۔
سو جناب میرا آپ سے سوال ہے کہ یہ کس قسم کی ریاست ہے، کونسا آئین ہےاور کیسی مملکت ہے کہ جہاں خط لکھنے اور تقریر کرنے پر سخت قید و بند کی سزائیں اور معافی ناموں کے مطالبے ہیں جب کہ ستر ہزار معصوموں کا لہو پینے والے ڈریکولا کو پچھلے دروازے سے فرار کی کھلی چھوٹ ہے ، ١٢٦ دن تک دار الحکومت کو جام کر کے ملک کی معیشت ، سیاست اور امن و امان کو زمیں بوس کرنے والوں کو تخت شاہی پر زبردستی جلوہ افروز کیا جاتا ہے اور یونیفارم میں ملبوس صوبائی چوکیداروں کے قاتلوں کو نہ صرف دعوت مذاکرات ہے بلکہ قاتلوں اورانکے سرپرستوں کو کبھی سرعام لفافے تو کبھی خاموشی سے گلدستے عنایت کیے جاتے ہیں۔
اگراب یہی ریاست پاکستان کا آئین اور قانون بن چکا ہے تو آپ سے درخواست ہے کہ اس “تبدیلی ” کا اعلان اپنے چنیدہ وزیراعظم اورانکی کابینہ کے ذریعے گلی گلی کروادیں تاکہ وہ جو قانون اور آئین کی پاسداری میں ” بکری ” بنے ہوئے ہیں وہ بھی ہمت پکڑیں اورخط وکتابت یا تقریر وں کے ذریعے ریاستی بے انصافیوں اور حکومتی زیادتیوں پرآوازاٹھانے کی بجائے پتھر، ڈنڈے ،گولی اور بم اٹھائیں اوراپنے مسائل “شیر کے پتر ” بن کر منٹوں میں حل کروا لیں۔
آپکے اس اعلان کی منتظر رہوں گی ۔
والسلام
آئینہ