جمیل خان
گیارہ برس قبل ڈان میں ایک خبر شائع ہوئی تھی کہ سندھ کے کسی چھوٹے سے شہر میں ہندوؤں کی بستی کے سامنے سڑک پر منہ اندھیرے کسی نے کلمہ طیبہ لکھ دیا، اور دن چڑھنے سے پہلے ہزاروں فرزندان توحید عرف خونخوار درندوں سے بدتر زومبیز کا مجمع اس بستی کے سامنے اکھٹا ہوگیا تھا، جو اس بستی کے چند اکابرین کا نام لے کر ان کے خون سے اپنے ایمان کی پیاس بجھانے کا مطالبہ کر رہا تھا۔
اس خبر کو سرسری نظر سے دیکھ کر ہی یہ حقیقت سمجھ میں آگئی تھی کہ کلمہ طیبہ سڑک پر لکھنا، خود ان حملہ آوروں میں سے ہی کسی کی حرامزدگی ہوسکتی ہے، جو اس بستی کے اکابرین سے اپنے کسی ذاتی یا اپنی برادری سے متعلق کسی قضیے کا بدلہ اس قدر وحشیانہ انداز میں لینے کی کوشش کر رہا تھا۔
آج اس واقعے کے متاثرین کی زبانی حقائق کو جاننے کا موقع ملا تو ذہن کانپ کر رہ گیا اور جسم کے رونگٹے کھڑے ہو گئے۔
ہندوؤں کی بستی میں تمام افراد تعلیم یافتہ اور جن اکابرین کا نام لے کر وحشی ہجوم حوالگی کا مطالبہ کر رہا تھا، وہ سب اعلی تعلیم یافتہ پروفیشنلز تھے، یعنی ان میں کوئی ڈاکٹر تھا تو کوئی انجینئر یا وکیل۔۔۔بس ان کی غلطی یہ تھی کہ اسلام کی سربلندی کے لیے دوسروں کی گردنیں کاٹنے کا عزم رکھنے والوں کی من پسند جماعت کی مخالف سیاسی جماعت کو یہ غیر مسلم افراد سپورٹ کرتے تھے۔
عقل سربہ گریباں ہے کہ اس قدر اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد کیونکر کلمہ طیبہ اپنی ہی بستی کے سامنے والی سڑک پر لکھیں گے؟ہاں اگر ان میں سے کوئی اپنا دماغی توازن کھو بیٹھے، تب بھی وہ اپنے بھگوانوں پر ہی اپنا غصہ نکالے گا۔ گوکہ اسلام کی سربلندی کے لیے دوسروں کی گردنیں کاٹ کر اپنے ایمان کی پیاس بجھانے والوں کے ہاتھوں ہندوؤں کی یہ چھوٹی سی بستی ملیامیٹ ہونے سے محفوظ رہی، تاہم آج چند سو نفوس پر مشتمل اس بستی کے اردگرد گیارہ مذہبی مدرسے قائم ہیں۔
اس بستی میں داخل ہوتے ہوئے یک بارگی تو میں چونک گیا تھا کہ بہت بڑے بڑے حرفوں میں “میں نوکر صحابہ دا” کے نعرے کی وال چاکنگ مجھے رات کی تاریکی میں بھی واضح طور دکھائی دے گئی تھی۔جب چاروں اطراف سندھی زبان بولنے والے رہائش پذیر ہوں تو پنجابی زبان میں یہ نعرہ کوئی کیوں لکھے گا؟
معلوم ہوا کہ قریب قریب قائم ان گیارہ مذہبی مدرسوں میں مہتمم اور شاگردوں میں ایک بھی مقامی سندھی نہیں ہے، سب کے سب جنوبی پنجاب سے لاکر یہاں کھپائے گئے ہیں۔
آج سمجھ میں آیا کہ سندھ میں مذہبی مدرسے افغان پشتونوں اور گل خانوں یا جنوبی پنجاب کے غریبوں میں اسلام پھیلانے کے لیے قائم کیے گئے ہیں۔۔۔۔ لیکن سندھ میں اسلام کے نام پر یہ دونوں اقوام کچھ زیادہ پھیلتی جا رہی ہیں اور ایسا کچھ کافی عرصہ سے پھیلائے چلی جارہی ہیں، جس کے اثراتِ بد جلد یا بدیر کافی بھیانک صورت میں ظاہر ہوسکتے ہیں۔
♣