بیرسٹرحمید باشانی
میں نے گزشتہ کالم میں عرض کیا تھا کہ 1947سے لیکر1950تک کشمیر پر امریکی پالیسی ایک سست رفتار ارتقائی عمل سے گزرتی رہی۔ ایک طویل مشق کے بعد بالآخر1951 میں ریاست ہائے امریکہ نے جنوبی ایشیا میں اپنی پالیسی میں بنیادی تبدیلی کا آغاز کیا۔ اس فیصلے کے بے شمار محرکات تھے ۔ لیکن جن عوامل نے امریکہ کو یہ فیصلہ کرنے میں مدد دی ان میں اس سوچ کا ابھرنا بھی تھا کہ جنوبی ایشیا میں کوئی بھی اتحادی نہ ہونے سے بہتر ہے کہ ایک اتحادی تو بنایاجائے۔ یہ امریکہ کی عملی اپروچ تھی، جو برصغیر میں سرد جنگ کے بڑھتے ہوئے خوف و خدشات کا مظہر تھی۔ بنیادی طور پر اس پالیسی کا تعلق ٹرومین ڈاکٹرائن سے تھا۔
ہیری ٹرومین ڈاکٹرائن اپنی تمام تر لفاظی کے باوجود محض سرد جنگ کا اعلان تھا۔ یہ اعلاں مارچ 1947 میں سامنے آیا تھا۔ اس اعلان میں امریکہ کی سرد جنگ کی پالیسی کی حدود کا تعین کر دیا گیا تھا۔ اس پالیسی کے تحت سوویت یونین کو دنیا بھر میں کمیونسٹ سرگرمیوں اور تحریکوں کا مرکز قرار دیا گیا تھا۔ یہ بھی کہا گیا تھا کہ کمیونزم بیرونی جارحیت یا اندرونی بغاوتوں کے زریعے کسی بھی ملک کو اپنے اثر میں لا سکتا ہے۔ چنانچہ یہ امریکہ کی زمہ داری قرار دی گئی کہ وہ دنیا کو کمیونسٹوں سے بچانے کے لیے جہاں بھی ضرورت پڑے فوجی اور معاشی امداد فراہم کرے۔
ہیری ٹرومین ڈاکٹرائن کے مطابق امریکہ کی پہلی ذمہ داری بین الاقوامی سطح پر کمیونزم کے نظریات کو روکنا تھا۔ اس حوالے سے جنوبی ایشیا ان علاقوں میں شامل تھا، جہاں سوویت پیش قدمی اور نظریات کے پھیلاو کے امکانات موجود تھے۔ ہیری ٹرومین ڈاکٹرائن کے تحت امریکہ نے پہلے یہ پالیسی اختیار کی کہ برطانیہ کے ذریعے بھارت اور پاکستان دونوں کو مغربی بلاک کے اندر رکھا جائے، تاکہ یہ خطہ اشتراکی اثرو رسوخ اور مارکسسٹ نظریات سے محفوط رہ سکے۔ لیکن جلد ہی برطانیہ نے امریکہ پر واضح کر دیا کہ وسائل کی کمی اور دیگر خطوں میں فوجی ضروریات کے پیش نظر برطانیہ بر صغیر پر زیادہ وسائل خرچ نہیں کر سکتا۔
اس کے بعد امریکہ نے دوسرے آپشنز پر غور شروع کیا۔ ایک آپشن یہ تھا کہ ہندوستان اور پاکستان کو ایک مشترکہ دفاعی نظام کے اندر لایا جائے ، اور دونوں ممالک کو مشترکہ طور پرسوویت یونین کے خلاف فوجی محاز کا حصہ بنایا جائے۔ لیکن یہ آپشن ناکام ہوا ۔ جب بھارت اور پاکستان کے وزرائے اعظم نے یکے بعد دیگرے ریاستہائے متحدہ امریکا کے دورے کیے تو بہت سارے معاملات امریکیوں پر واضح ہوئے، جن کی روشنی میں انہیں اپنی حکمت عملی میں تبدیلی کی ضرورت محسوس ہوئی۔ وزیر اعظم پاکستان کے تین مئی 1950کے دورے کے دوران جو بات امریکیوں کو بہت زیادہ پسند آئی وہ وزیر اعظم لیاقت علی خان کا کمیونزم کے خلاف واضح موقف تھا۔ وزیر اعظم لیاقت علی خان نے کوئی لگی لپٹی رکھے بغیر کمیونزم کو دنیا میں اور پاکستان کے لیے ایک بڑا خطرہ اور چیلنج قرار دیا۔ انہوں نے واضح کیا کہ نظریاتی اعتبار سے اسلام اور اشتراکی نظریات میں واضح تضادات ہیں، اور پاکستان میں کمیونزم کے خلاف لڑنے کے لئے لاکھوں لوگ تیار ہیں۔
دوسری طرف اکتوبر 1949میں بھارتی وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو نے اپنے دورے کے دوران امریکی کوششوں کے باوجود کمیونزم کے خلاف کوئی واضح بیان دینے سے انکار کر دیا تھا۔ حالاں کہ پنڈت نہرو کے دورے کو بہت زیادہ اہمیت دی گئی تھی ، اور نیویارک ٹائمز نے پنڈت نہرو کو دنیا کا مقبول ترین سیاستدان قرار دیا تھا۔ لیکن ان سب کوششوں کے باوجود پنڈت نہرو نے کمیونزم کے خلاف اعلان جنگ کے بجائے غیرجانبدار تحریک کو آگے بڑھانے کے عزم کا اعادہ کیا۔ پنڈت نہرو سے مکمل مایوسی کے بعد امریکی پالیسی سازوں نے پاکستان کے ساتھ ایک اتحادی کے طور پر معاملات آگے بڑھانے کا فیصلہ کیا ۔ اس سلسلے میں پہلے ہی بہت بڑا “ہو م ورک ” ہو چکا تھا ۔
وزیر اعظم لیاقت علی خان سے پہلے پاکستان کے چند اہم وزرا یکے بعد دیگرے امریکہ کا دورہ کر چکے تھے ۔ ان سب نے پاکستان میں کمیونزم کے خلاف اگلی صف میں لڑنے کے عزم کا اظہار کیا تھا، اور اس خواہش کا اظہاربھی کیاتھا کہ پاکستان اور ریاست ہائے متحدہ کے درمیان فوجی تعاون ضروری ہے۔ امریکیوں کے لیے اس امر میں کسی شک کی گجائش نہیں رہی تھی کہ پاکستان ہیری ٹرومین ڈاکٹرائن کے تحت بین الاقوامی سطح پر کمیونزم کے خلاف لڑائی میں مغرب اور امریکہ کا اتحادی بننے کے لئے تیار ہے ۔ امریکہ ایک عرصے سے پاکستان میں کمیونزم کے بڑھتے ہوئے رحجانات پر فکر مند تھا۔ اس فکر مندی کا اظہار امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی ایک پالیسی بیان سے ہوتا ہے، جو یکم جولائی1951 میں واشنگٹن سے کراچی میں امریکن ایمبیسی کو ارسال کیا گیا۔
اس پالیسی بیان میں کہا گیا کہ“مارچ 1950میں کراچی میں سوویت یونین کی ایمبسی کھلنے کے بعد مغربی اور مشرقی پاکستان دونوں میں کمیونسٹوں کی سرگرمیاں تیز ہوئی ہیں۔ حالاں کہ کمیونسٹ پارٹی کے پاس عوامی سطع پر وسیع حمایت حاصل نہیں ہے، لیکن اس کے پاس ایک ایسی تنظیم اور قیادت ہے، جو ثابت کر چکی ہے کہ وہ معاملات میں خلل ڈالنے یا رکاوٹ پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ حکومت پاکستان مکمل طور پر بڑے جاگیردار وں پر انحصار کرتی ہے۔ لیکن یہ جاگیر دار بہت قدامت پرست ہیں، اور عوام کے مسائل کو حل کرنے میں سست روی کا شکار ہیں۔ اس سے پاکستان میں کمیونسٹوں کو موقع ملتا ہے کہ وہ احتجاجی تحریکوں کو منظم کریں۔ پاکستان کی مرکزی حکومت کمیونزم اور کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان کے خطرے سے پوری طرح اگاہ ہے۔ اس نے کمیونسٹ لیڈروں پر نظر رکھی ہوئی ہے، اور ان کی سرگرمیوں کو دبانے کے لیے کئی سخت اقدامات اٹھا چکی ہے۔ مرکزی اور صوبائی حکومتیں بار بار اس عزم کا اظہار کر چکی ہیں کہ وہ پاکستان میں کمیونزم کو روکنے کے لیے ایک پروپیگنڈا پروگرام بنانے کے لیے مغربی جموریتوں کے ساتھ تعان کے لیے تیار ہیں“۔
اس طرح امریکی تجزیوں کے مطابق پاکستان ایک ” ماڈل ملک ” تھا جو ہری ٹرومین کے عالمی ڈاکٹرائن میں فٹ آتا تھا۔
ان حالات میں امریکہ نے بلاخر اگلا قدم اٹھایا، اور 1954 میں پاکستان کے ساتھ دفاعی اور فوجی امداد کےمعاہدے پر دستخط کر دیے ۔ اسی سال پاکستان سیٹو کا ممبر بن گیا۔ جس میں برطانیہ فرانس آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ شامل تھے۔ اس سے ایک سال بعد پاکستان نے بغداد پیکٹ پردستخط کر دیے، جس میں برطانیہ ترکی ایران اور عراق شامل تھے ۔ اس طرح پاکستان امریکہ اور سوویت یونین کے درمیان سرد جنگ میں امریکہ اور مغرب کا قریب ترین حلیف اور اتحادی بن گیا۔ پاکستان کی طرف سے ان اتحادوں میں شمولیت کا سب سے بڑا اثر مسئلہ کشمیر پر پڑا۔ ان معاہدوں پر سب سے سخت رد عمل بھارت نے دیا ۔
پنڈت نہرو نے پاکستان اور بھارت کے درمیان باہمی معاہدوں اور مسئلہ کشمیر کے پر کیے گئے وعدوں پر قائم رہنے سے انکار کر دیا۔ لیکن اس سے بھی بڑا اور گہرا اثر سوویت یونین کے رد عمل سے پڑا، جس کے نزدیک پاکستان اب ایک ایسا ملک تھا، جو سوویت یونین کے خلاف فوجی اتحادوں کا حصہ بن چکا تھا۔ مسئلہ کشمیر پر سوویت یونین نے اپنی پالیسی میں بنیادی تبدیلی لانی شروع کی۔ مسئلہ کشمیر، کشمیری عوام کے حق خود اردایت کے بجائے برصغیر میں سرد جنگ کا نقطہ ماسکہ بن گیا۔
اس طرح جو نئی سیاسی “لینڈ سکیپ” سامنے آئی، اس کا جائزہ کسی آئندہ کالم میں لیا جائے گا۔
♠