بیرسٹر حمید باشانی
پچاس کی دہائی میں مغرب کا اہم ترین اتحادی ہونے کے ناتے پاکستان مسئلہ کشمیر پر مغرب سے کیا فوائد اٹھا سکتا ہے ؟ اس سلسلے میں پاکستان کے پالیسی ساز حلقوں میں بہت زیادہ توقعات پیدا ہو چکی تھیں۔ اس سلسلے میں بھارت میں بھی کئی خدشات اور خوف جنم لے رہے تھے۔ لیکن سب سے اہم سوال یہ تھا کہ اس باب میں خود مغربی اتحادی کیا سوچتے تھے۔ اس سوال کا جواب ہمیں ایک ٹیلی گرام سے ملتا ہے۔
یہ ٹیلی گرام پانچ مارچ 1956کو نیو دہلی کے امریکی سفارت خانہ نے پاکستان میں واقع امریکی سفارت خانہ کو لکھا۔ یہ ٹیلی گراف سیٹو کی اگلی کانفرنس سے کچھ پہلے ارسال کیا گیا، جس کے نتائج بقول امریکی سفارت کاروں کے امریکہ، پاکستان، اور بھارت کے باہمی تعلقات کو بہت برے طریقے سے متاثر کر سکتے تھے۔ اس ٹیلی گرام میں امریکی سفیر نے لکھا کہ یہاں بھارت میں یہ افواہیں گردش کر رہی ہیں کہ پاکستان سیٹو کے اجلاس میں امریکہ یا سیٹو سے کہے گا کہ مسئلہ کشمیر پر اس کی پوزیشن کی حمایت کی جائے۔ میں یہ واضح کرنا چاہتا ہوں کہ اگر ایسا کیا گیا تو اس سے بھارت کے اس خدشے کی تصدیق ہو گی کہ سیٹو صرف روس کے خلاف کوئی دفاعی اتحاد نہیں ہے ، بلکہ بھارت کے خلاف بھی اس کا سیاسی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اگر پاکستان کے کہنے پر کشمیر پر کوئی بیان دیا گیا تواس طرح کے کسی بیان کا پاکستان کو کوئی فائدہ نہیں ہو گا، البتہ اس سے امریکی مفادات کو ضرور زک پہنچے گی۔ یہ براہ راست روسی ہاتھوں میں کھیلنے والی بات ہوگی، اور ہمارے لیے مستقبل میں اس معاملے پر نہرو سے کسی مفید گفتگو کے دروازے بند ہو جائیں گے۔ اس لیے میں استدعا کرتا ہوں کہ امریکہ ایسے معاملات میں فی الحال کوئی قدم اٹھانے سے گریز کرے، جن کا تعلق براہ راست اس کی سیکورٹی سے نہیں ہے۔
کراچی کے امریکی سفارت خانہ کے خیالات بھی اس سے مختلف نہیں تھے۔ چنانچہ سیٹو کے اجلاس سے پہلے ہی اس بات کا پکا بندوبست کر دیا گیا تھا کہ اس پلیٹ فارم پر مسئلہ کشمیر کے حوالے سے کوئی بات نہ کی جائے۔ امریکہ یا سیٹو، مشترکہ طور پر یا الگ الگ اس مسئلے پر کوئی بیان جاری نہ کریں۔ اسی ٹیلی گرام میں “امریکہ پاکستان فوجی معاہدے” پر اظہار خیال کرتے ہوئے امریکی سفیر نے لکھا کہ یہ معاہدہ امریکہ اور بھارت کے درمیان ” فریکشن” کی بڑی وجہ بن چکا ہے۔ بھارت مسئلہ کشمیر پر پاکستان بھارت تنازعے کے دوران امریکہ کی طرف سےمعاہدہ کرنے کے اس عمل کو ایک غیر دوستانہ حرکت قرار دیتا ہے۔ اس کا خیال ہے کہ یہ معاہدہ بھارت کے لیے لازم قرار دیتا ہے کہ وہ اپنے وسائل کو ترقیاتی کاموں سے ہٹا کرفوج پر خرچ کرے۔ لیکن سب سے بڑی بات یہ ہے کہ بھارت یہ ماننے کے لیے تیار ہی نہیں ہے کہ پاکستان صرف سوویت روس کے خطرے خلاف دفاع کے لیے یہ ہتھیار لے رہا ہے۔
بھارت کو خطرہ ہے کہ کسی اندرونی بحران کے نتیجے میں پاکستان بھارت کے خلاف مہم جوئی کر سکتا ہے، جس میں یہ ہتھیار بھارت کے خلاف استعمال ہو سکتے ہیں۔ اگرچہ 1953 کے اس پاک امریکہ معاہدے کے بارے میں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بھارت کے خیالات میں قدرے نرمی ضرور آئی ہے، لیکن حال ہی میں سر اٹھانے والے کچھ خدشات اور افواہیں ابھی تک صورت حال کو خرب کر رہی ہیں۔ ان افواہوں میں پاکستان میں امریکی ہوئی اڈوں کی تعمیر، نیول بیس کی مرمت اور بہتری، اور پاکستان کو ہتھیاروں کی سپلائی جیسی بڑی افواہیں شامل ہیں۔ امریکہ یقیناً یہ دلیل دے سکتا ہے کہ بھارت کو طاقت کے توازن کا علم ہونا چاہیے، اور اس سلسلے میں اس کے خدشات بے بنیاد ہیں۔
لیکن مسئلہ یہ ہے کہ بھارتی حکومت کو پاک امریکہ فوجی معاہدہ کے حقیقی سکوپ کا علم نہیں ہے۔ اور وہ نہیں جانتا اس سے پاکستان کو درحقیقت کتنا فائدہ ہو گا۔ وہ اتنا جانتے ہیں کہ پاکستان جدید اسلحے کی سپلائی سے طاقت کے توازن پر بڑا فرق پڑسکتا ہے ، کیونکہ بھارت کے پاس پیشتر ہتھیار پرانے ہیں، جو دوسری جنگ عظیم ٹائپ کے ہیں۔ مجھے یہ بھی بتایا گیا ہے کہ ان خدشات کے پیش نظر بھارت کے کچھ حکومتی اور فوجی اہلکار یہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ بھارت کے دفاع کے لیے جدید ہتھیار ضروری ہیں، یہ ہتھیار ہر صورت میں حاصل کرنے ضروری ہیں ، خواہ روس سے ہی کیوں نہ لیے جائیں۔ بھارتی حکومت امریکہ کی یہ دلیل تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہے کہ وہ امریکہ سے ہتھیار لے سکتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ امریکہ کہ ساتھ کسی ایسے معاہدے میں شریک نہیں ہونا چاہتی، جو اس کی خارجہ پالیسیوں سے متصادم ہو۔ یا معاہدے کی عدم موجودگی میں ہتھیار لیکر وہ اسلحے کی دوڑ میں شریک نہیں ہونا چاہتی ۔ دوسری طرف بھارت کو یہ احساس بھی نہیں ہے کہ خطے کی ایک بڑی اور طاقت ور قوم کی حیثیت سے یہ ان کے اختیار میں ہے کہ وہ پاکستان کے خوف سے نکل کر، دونوں کے درمیان تناؤکو کم کریں اور تنازعہ کشمیر کے حل کی طرف بڑھیں۔
پاکستان کے ساتھ کسی فوجی تصادم کے بارے میں بھارت کا خدشہ بے بنیاد ہے، لیکن یہ خدشہ ایک حقیقت ہے۔ اس کو آسانی سے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ حقیقت میں یہ امریکہ اور بھارت اور پاکستان کے درمیان تناؤ کی ایک وجہ ہے۔ ان حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے میں تجویز کروں گا کہ سیٹو اپنی میٹنگ کے دوران کوئی نئی “کمینٹمنٹ” نہ کرے۔
آگے چل کر سیٹو کے اجلاس کے دوران بالکل وہی ہوا، جس کی خواہش بھارت میں مقیم امریکی سفیر اپنے خط میں کر چکے تھے۔ امریکیوں نے نہ ہی اپنے طور پر اور نہ ہی سیٹو سے مل کر کشمیر پر کوئی بیان دیا۔ اس طرح گزشتہ چند برسوں کے دوران امریکہ کے ساتھ مل کر مختلف اتحادوں میں شمولیت کے جو فوائد دیکھے گئے تھے، اور مسئلہ کشمیر کے حوالے سے جو توقعات عوام میں پیدا کی گئی تھیں، وہ سب زمین بوس ہو گئی۔ امریکہ نے اسی پر بس نہیں کیا، بلکہ ایک قدم آگے بڑھ کر بھارتی وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو کو دورہ امریکہ کی دعوت دے دی۔ نہرو نے اس دورے کی دعوت قبول کر لی۔ بھارتی وزیر اعظم نے دسمبر سولہ سے دسمبر بیس1956 کے دوران امریکہ کا دورہ کیا۔ یہ نہرو کا سب سے کامیاب دورہ امریکہ تھا۔ نہرو نے صدر آئزن ہاور کے فارم ہاوس پر تقریباً ڈیڑھ دن گزارا۔ دونوں لیڈروں کے درمیان چودہ گھنٹے پر مشتمل طویل مذاکرات ہوئے۔ اس دورے کے بعد نہرو اور آئزن ہاور کے درمیان ذاتی “انڈر سٹینڈنگ” اور کیمسٹری کی باتیں عام ہونے لگیں۔ اس دورے کے دوران سوویت یونین، پاکستان بھارت تعلقات اور کشمیر پر تفصیلی بات چیت ہوئی۔
اس طرح امریکہ کی جنوبی ایشیا کے لیے جو نئی پالسی تشکیل پائی، اس پالیسی میں پاکستان سے فوجی معاہدہ کے باوجود پاکستان اور بھارت دونوں کی فوجی و مالی امداد کا راستہ اپنایا گیا۔ اور مسئلہ کشمیر کو باہمی گفت و شنید سے طے کرنے کی پالیسی پر زور دیا گیا۔ اس طرح پاکستان عالمی فوجی اتحادوں میں شمولیت سے جو کچھ حاصل کرنا چاہتا تھا، وہ نہ ہوا۔ یہ صورت حال آگے چل کر مزید پیچیدہ شکل اختیار کر گئی، جس کا جائزہ کسی آئندہ کالم میں لیا جائے گا۔
♥