تحریر: شہداد شمبے زئی
گوادر کا نام سنتے ہی سی پیک اور ترقی جیسے الفاظ خیالات کا طواف شروع کردیتے ہیں اور سی پیک کا نام سنتے ہی ذہن گوادر کی طرف جاتا ہے۔ اسی سی پیک منصوبے کے تحت چین نے پاکستان میں 60 ارب ڈالر سے زائد کی سرمایہ کاری کا اعلان کر رکھا ہے، جبکہ اس کے علاوہ بلوچستان کے ساحلی شہر گوادر؛ جسے آجکل پاکستان میں سی پیک کا جھومر کہا جاتا ہے، یہاں چینی کمپنیوں نے پیٹرو کیمیکل انڈسٹری میں 15 ارب ڈالرز کی سرمایہ کاری کرنے کا ارادہ کررکھا ہے۔
پاکستان اور چینی حکام کی ملاقاتوں یا گوادر میں سخت سیکورٹی میں دوروں کے دوران میڈیا میں دکھائے جانے والا گوادر یا کوہ باتیل کے سائے میں سیلفی لینے کے لیے مشہور کرکٹ اسٹیڈیم سے الگ ایک گوادر بھی وجود رکھتا ہے، جسے پاکستان کی میڈیا میں دکھانا شجر ممنوعہ بن چکا ہے۔
ویسے تو گوادر میں کئی برسوں سے پانی اور بجلی کے لئے احتجاج ہوتے آرہے ہیں اور ماہیگر بحر بلوچ( بحیرہ عرب) میں غیر قانونی ٹرالرنگ کے خلاف سراپا احتجاج رہے ہیں، تاہم گذشتہ چھ دنوں سے گوادر پورٹ کے احاطے میں شہریوں کی بڑی تعداد شامیانہ لگا کر سراپا احتجاج بن گئے ہیں۔
“جب تک بلوچ تنگ رہے گا، جنگ رہے گا” جیسے نعرے شہر میں گونج رہےہیں۔ اس دھرنے میں ضلع گوادر کے علاوہ بلوچستان کے ضلع کیچ اور پنجگور سے بھی لوگ بڑی تعداد میں شریک ہیں۔ دھرنے میں تمام مکاتب فکر کے لوگ اپنے مسائل لیئے شریک ہیں اور اپنا اپنا دکھڑا سنانے کیلئے بیتاب ہیں۔
دی بلوچستان پوسٹ سے بات کرتے ہوئے دھرنے میں شریک بلوچستان کےایک دور دراز علاقے بلیدہ سے آئے پیشے کے اعتبار سے ایک ڈرائیور نے شناخت نہ ظاہر کرنے کے شرط پر کہا کہ “ہم اس امید اور یقین کے ساتھ یہاں موجود ہیں کہ حکومت ہمارے مطالبات کو تسلیم کرتے ہوئے سرحدی تجارت کو بحال کردے گا۔“
گوکہ دھرنے میں لوگ بلاجھجھک دور دراز علاقوں سے آئے ہوئے ہیں لیکن جب بات فرداً میڈیا کے سامنے بات کرنے کی آتی ہے تو شرکاء کے چہروں پر خوف کی پرچھائیاں صاف نظر آتی ہیں، جب اس خوف کی وجہ پوچھی جاتی ہے تو شرکاء قریب کھڑی فورسز کی گاڑیوں کی طرف اشارہ کرکے خاموشی سے مجمعے میں گم ہوجاتے ہیں۔
بلیدہ کے رہائشی نے مزید بات کرتے ہوئے کہا کہ “ٹوکن نظام سے ہم مطمئن نہیں ہیں اور ایک ٹوکن کے لیے سفارش کے علاوہ مہینوں انتظار کرنا پڑتا ہے۔ ٹوکن کے حصول کے لیے ایف سی اہلکاروں کی گالی اور بدزبانی ہمارے لیے ناقابل برداشت ہے“۔
وہ دبے لہجے میں ٹوکن نظام کو سیکیورٹی فورسز کا منظم بھتہ خوری کا نظام قرار دیتے ہیں۔
مقامی ماہی گیر الٰہی بخش بھی دھرنے میں شریک ہیں، انہیں اپنا نام ظاھر کرنے کا خوف نہیں لیکن اپنی رائے کا اظہار کرنے سے پہلے وہ ہماری طرف دیکھ کر سختی سے بولتے ہیں “ کوئی تصویر نہیں” وہ کہتے ہیں کہ “یہ شہر اب اجنبی بن چکا ہے، گھر سے سمندر تک جانے کے لئے ہم سے کسی اجنبی زبان میں کوئی اجنبی شخص کئی سوال پوچھتا ہے اور پھر کہا جاتا ہے کہ نسلوں سے ہماری میراث سمندر میں اترنے کے لیے ہمیں تب تک انتظار کرنا پڑے گا جب تک بڑے صاحب لوگ چہل قدمی پورا نا کرلیں، جب تک صاحب کی چہل قدمی پورا ہوجاتا ہے، تب تک شکار کا وقت بھی جاچکا ہوتاہے اور صاحب کی صحت کی قیمت ہمارے بچے رات فاقے کرکے ادا کرتے ہیں”۔
الہی بخش کے مطابق “اگر خوش قسمتی سے وہ کبھی شکار کے لئے اپنی ناؤ تیار کرکے سمندر میں اتار بھی دیں تو بڑے بڑے غیر قانونی ٹرالر انکے چھوٹے سے ناؤ کو بھاگنے پر مجبور کردیتے ہیں“۔
انکے مطابق “حکومت جان بوجھ کر ایسے مسائل پیدا کررہی ہے کہ ہم یہاں سے چلے جائیں لیکن ہم خاندانی ملاح جائیں بھی تو کہاں؟ پھر وہ تیزی سے دائیں بائیں اپنا گردن ہلاتے ہوئے، زور دیکر بولتے ہیں” نہیں ہم اپنے بزرگوں کی قبروں کو ہرگز چھوڑ کر نہیں جائیں گے“۔
انکو یقین ہے کہ مولوی ہدایت الرحمان ایک مچھیرے کا بیٹا ہے اور وہ اپنے سمندر کو بچانے میں کامیاب ہونگے۔
دھرنے میں شریک ہر شخص ایک الگ داستان لے کر آیا ہے۔ سمندر میں ٹرالنگ، فوجی چیک پوسٹوں پر عوامی تذلیل، لاپتہ افراد، سرحدی کاروبار کی بندش، پانی بجلی کا بحران اور دیگر مسائل پر لوگ اپنے غم وغصے کا اظہار کررہے ہیں۔
دوسری جانب گوادر کے مقامی فنکار دھرنے میں اپنے فن اور اسٹیج ڈراموں کے ذریعے تخلیقی انداز میں ان مسائل کو پیش کرتے نظر آتے ہیں۔
دی بلوچستان پوسٹ نے مقامی انتظامیہ کا موقف جاننے کیلئے گوادر انتظامیہ کے ایک مقامی اہلکار سے رابطہ کیا تو انہوں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا کہ “لوگوں کی بڑی تعداد میں شہر کے اہم ترین چوراہے اور پورٹ کے احاطے میں اتنا بڑا احتجاج غیر ملکی سرمایہ کاروں کو پریشانی میں لاحق کرنے کا وجہ بن چکی ہے اور وہ حکومت پر دباؤ ڈال رہے ہیں کہ دھرنے کے چند مطالبات پر حامی بھر کر انکا احتجاج ختم کرایا جائے“۔
گذشتہ دو دنوں سے بلوچستان حکومت اور دھرنا منتظمین کے درمیان مذاکرات کے کئی دور ہوچکے ہیں لیکن تمام بری طرح ناکامی کا شکار ہوتے نظر آرہے ہیں۔
سمندر میں غیر قانونی سمیت غیر ملکی ٹرالنگ، غیر ضروری فوجی چیک پوسٹ، سرحدی کاروبار اور دیگر چند مطالبات بلوچستان حکومت کے اختیار سے باہر ہیں تاہم وفاقی حکومت ابتک خاموش نظر آتی ہے۔
دھرنے میں اب تک بلوچستان میں اثر رسوخ رکھنے والے قوم پرست پارلیمانی جماعت کے مقامی رہنماء شرکت سے گریزاں ہیں اور عوامی حلقوں میں اس بات پر حیرانگی ظاہر کی گئی ہے جبکہ غیرپارلیمانی سیاست کے قائل قوم پرست جماعتیں ان مطالبات کے حق میں اپنا موقف ظاھر کرچکے ہیں۔
گوادر حق تحریک کے سربراہ مولوی ہدایت الرحمان بلوچ میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ “بامقصد مذاکرات کے لیے تیار ہیں، ہمارے پیش کردہ چارٹر آف ڈیمانڈ پر عمل کیا جائے”۔
انہوں نے مذاکرات کے بابت اپنا موقف ظاھر کرتے ہوئے کہا کہ “ ہم سیاسی لوگ ہیں مذاکرات پر یقین رکھتے ہیں، لیکن مطالبات کی منظوری تک جدوجہد جاری رکھیں گے۔”
انہوں نے دھرنے کے شرکاء سے کیئے اپنے ایک خطاب کے دوران چائینیز اور سیکورٹی فورسز کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ “گوادر ہمارا ہے یہاں کے لوگوں کے بغیر کوئی ترقی قبول نہیں کرتے”۔
جبکہ آج ایک بار پھر شہر میں ریلی نکالی جائے گی اور لوگوں کو منظم رکھ کر دھرنے کو جاری رکھنے کے لئے مختلف کمیٹیاں تشکیل دی گئی ہیں۔
یہ گوادر میں احتجاجوں کا پہلا دور نہیں اور انتظامیہ کی غیرسنجیدگی سے یہ اندازہ لگانا کوئی مشکل نہیں کہ یہ آخری احتجاج بھی ثابت نہیں ہوگا، حکومت کی نظر میں گوادر ضرور اہمیت کا حامل ہے، لیکن یہاں کے آبائی لوگوں کو اس اہمیت کے سامنے رکاوٹ سے زیادہ کا درجہ ابتک حاصل نہیں ہوسکا ہے۔
بشکریہ: بلوچستان پوسٹ