بیرسٹر حمید باشانی
پچاس کی دہائی کے آواخر میں جنوبی ایشیا میں امن کے سوال اور مسئلہ کشمیر پر امریکی پالیسی نے ایک نیا موڑ لیا تھا۔ اس پالیسی کا اظہار اس وقت کے عالمی طاقت ور حلقوں کی اس مسئلے پر باہمی گفتگو ،خطوط کے تبادلے اور ٹیلی گراہم وغیر ہ کی شکل میں موجود دستاویزات سے ہوتی ہیں، جن کو اس وقت بہت سختی سے خفیہ رکھا گیا۔ اس کی ایک مثال کراچی کی ایک میٹنگ کی یاداشت ہے، جو کراچی سے سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کو ارسال کی گئی۔
یہ میٹنگ آٹھ دسمبر 1959 کو صبح نو بجے شروع ہوئی۔ اس اجلاس میں امریکہ کی طرف سے امریکی صدر آئزن ہاور، جنرل گڈ پاسٹر، ایمیبیسڈر ران ٹری اور مسٹر مرفی نے شرکت کی۔ پاکستان کی طرف سے صدر ایوب وزیر خارجہ منظور قادر، فنانس منسٹر شعیب اور سیکریٹری خارجہ اکرام اللہ نے شرکت کی۔ اس اجلاس کا مکمل ا حوال اس میمورینڈم میں موجود ہے، جو اب امریکی حکام نے ڈی کلاسیفائی کیا ہے۔ جیسا کے سرد جنگ کے اس دور میں معمول تھا کہ اس طرح کی ہر ہائی پروفائل میٹنگ کا فوکس سوویت یونین ہوتا تھا، اس طرح اس گفتگو کا نقطہ ماسکہ بھی سوویت یونین اور کمیونزم کی روک تھام تھا۔
اجلاس کا بیشتر وقت اس سوال پر غور کرنے پر خرچ ہوا کہ خطے میں سوشلزم کو کیسے روکا جائے اور ” آزاد دنیا” کو سوویت یونین کی پیش قدمی سے کیسے بچا یا جائے۔ اس سلسلے میں صدر ایوب نے سوویت یونین اور کمیونزم کے تناظر میں جنوبی ایشیا اور مشرق وسطی کی سیاست کا جائزہ لیا، اور بتایا کہ پاکستان اس سلسلے میں امریکہ کے ساتھ مل کر ایک اہم اور کلیدی کردار ادا کر سکتا ہے؟ اور اس باب میں پاکستان کو امریکہ سے فوجی اورمالی مدد کی ضرورت ہے۔
یہ ایک دلچسب یاداشت ہے۔ تاہم یہاں ہم اس میمورنڈم کے بیشتر حصے کو نظر انداز کرتے ہوئے ہم اس تحریر کو صرف ان نکات تک محدود کرتے ہیں، جو زیادہ تر جنوبی ایشیا کی سیاست اور پاکستان بھارت کے باہمی تنازعات سے جڑے ہیں۔ صدر ایوب نے اس اجلاس میں یہ تجزیہ پیش کیا کہ اگلے تیس سے ساٹھ سالوں میں چین ایک بہت بڑی طاقت بن جائے گا۔ چنانچہ سوویت یونین آنے والے برسوں میں چین کی مدد جاری رکھتے ہوئے چین کا “کاونڑ بیلنس” تلاش کرنے کی کوشش کرے گا۔ سوویت یونین کا سب سے بڑا مسئلہ نیٹو ہے۔ اگرچہ انہوں نے نیٹو کو تباہ کرنے کی پوری کوشش کی ہے، لیکن ان کو علم ہو گیا ہے کہ ایسا کرنا مشکل ہے۔ اس لیے سوویت یونین کی طویل المدتی پالیسی اب کسی متبادل کی تلاش ہے۔ اس متبادل کی تلاش میں حالیہ برسوں میں انہوں نے اپنی توجہ افغانستان پر مرکوز کی ہے۔ ان کا خیال ہے کہ وہ افغانستان کے راستے وہ مقاصد حاصل کر سکتے ہیں، جو مشرق وسطی اور دوسرے راستوں سے ممکن نہیں ہیں۔
ایوب خان نے انکشاف کیا کہ چین جنوبی ایشیا کے گرد ونواح میں ہوائی اڈے تعمیر کر رہا ہے۔ اور یہ بہت جلد برما کے ذریعے بھارت کے لیے بہت بڑا خطرہ پیدا کر دے گا۔ چین اور سوویت یونین کے مشترکہ دباؤ کے نتیجے میں بھارت ٹوٹ سکتا ہے۔ اس اجلاس میں صدر ایوب نے ایک نقشہ پیش کیا، جس میں افغانستان میں سوویت یونین کی سڑکوں کی تعمیر کی تفصیل تھی۔ انہوں نے اجلاس کے شرکا کو ان سڑکوں کی فوجی اہمیت سے آگاہ کیا، اور بتایا کہ افغانستان کو ان سڑکوں کی ضرورت نہیں ہے، یہ صرف سوویت فوجی ضروریات کے مطابق بنائی جا رہی ہیں۔ ماضی میں سوویت یونین کی طرف سے پاکستان کے خلاف فوج کشی کی بہت ساری محدودات تھیں۔ مگر ان سڑکوں کی تعمیر کے بعد آٹھ ڈویثرن فوج کو تیزی سے پاکستان کے خلاف لایا جاسکتا ہے، اور اس میں اضافے کی گنجائش موجود ہے۔افغانستان میں سڑکوں کی تعمیر کے بعد سوویت یونین ک پاس دو راستے بن گئے ہیں، ایک مشرق وسطی اور دوسرا افغانستان کے ذریعے جنوبی ایشیا۔ اس اجلاس سے چند ماہ پہلے صدر ایوب یہ کہہ چکے تھے کہ اگر پاکستان اور بھارت کی آپس کی دشمنی جاری رہتی ہے، تو یہ دونوں کے لیے جان لیوا ثابت ہو سکتی ہے۔ برصغیر کا تحفظ ان کے مشترکہ مفاد میں ہے۔ اس کے باوجود بھارت کی اسی فیصد فوجیں پاکستان کے خلاف لگی ہوئی ہیں۔ جس کے نتیجے میں بیشتر پاکستانی افواج بھارت کے خلاف کھڑی ہیں۔
اس نے سوال اٹھایا کہ پاکستان اور بھارت کے باہمی تنازعات کیوں حل نہیں ہو سکتے؟ جبکہ یہ واضح ہے کہ اگر ان کے آپس کے مسائل حل ہو جائیں تو وہ مجموعی طور پر اس علاقے کے تحفظ پر اپنی توجہ لگا سکتے ہیں۔ اس وقت نہرو کو چین کا سامنا کرنے کے فوجی کی قلت کا مسئلہ در پیش ہے، کیوں کہ اس کا خیال ہے کہ بھارتی فوجوں کو پاکستانی سرحدوں سے نہیں ہٹایا جا سکتا۔ بالکل اسی طرح آج اگر پاکستان کو افغانستان کے اپنے خلاف دفاع کے لیے فوجیں درکار ہوں تو وہ اپنی فوجوں کو بھارتی سرحدوں سے نہیں ہٹا سکتا۔ صدر ایوب نے کہا کہ ان حالات میں تبدیلی ضروری ہے تاکہ فوجی صورت حال بہتر کی جا سکے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان اور بھارت کے مشترکہ دفاع کے تصور کو پنڈت جواہر لال نہرو نے مسترد کر دیا ہے۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات میں بہتری کے لیے کشمیر کا مسئلہ حل ہونا ضروری ہے۔ چونکہ اس کے بغیر دونوں ملکوں کے درمیاں امن کی ضمانت نہیں دی جا سکتی۔
صدر ایوب نے بھارت کے ساتھ انڈس واٹر مذاکرات پر اطمینان کا اظہار کیا، اور امید ظاہر کی کہ اس پر سمجھوتہ ہو جائے گا۔ اس نے کہا کہ پاکستان کو اس وقت تئیس ملین ایکڑ زمین کاشت کرنے میں مشکل در پیش ہے۔ کیوں کہ اس کاشت کا انحصار مکمل طور پر انڈس واٹر پر ہے۔ اس لیےاس کی حفاظت ضروری ہے، اور یہ حفاظت کشمیر کے پہاڑوں سے شروع ہوتی ہے۔ اس لیے پاکستان کی زندگی کا انحصار کشمیر پر ہے۔ تاہم مسئلہ کشمیر کا کوئی حل اس وقت تک ناممکن ہے جب تک تین عناصر کو مد نظر نہیں رکھا جاتا۔ پہلا یہ کہ کشمیر کے عوام کشمیر کے مستقبل میں فریق اور حصے دار ہیں۔ دوسرا یہ کہ پاکستان مسئلے کا فریق ہے۔ اور تیسرا یہ کہ بھارت بھی اس مسئلے کا ایک فریق ہے۔ کوئی حل جو ان تینوں فریقوں کے مطمئن کرے وہ پاکستان کے لیے قابل قبول ہے۔ بہترین حل ایک استصواب رائے ہوگا، لیکن اگر یہ ممکن نہیں ہے تو کوئی بھی طریقہ جو ان تینوں فریقوں کو مطمئن کر سکے ہمارے لیے قابل قبول ہوگا۔
اگر پاکستان اور بھارت کے درمیان معاملات طے نہیں کیے جاتے ، تو دونوں ممالک تباہ و برباد ہو جائیں گے۔ امریکہ ممکن ہے دیر سے اس سے متاثر ہو لیکن اس کے مفادات بھی مجروح ہوں گے۔ اس موقع پر صدر آئزن ہاور نے 1956 میں پنڈت جواہر لال نہرو کے ساتھ گفتگو کے ایک طویل سلسلے کا ذکر کیا جو مسئلہ کشمیر پر دونوں کے درمیان ہوا تھا۔ انہوں نے کہا کہ اب صدر ایوب کے خیالات سننے کے بعد وہ انہی خطوط پر پنڈت نہرو کے ساتھ مسئلہ کشمیر پر دوبارہ گفتگو کا آغاز کریں گے۔ صدر آئزن ہاور نے اس گفتگو کے بعد مسئلہ کشمیر کے حل کے بارے میں خوش امیدی کا اظہار کیا۔
صدر آئزن ہاور نے اس کے بعد بھارت جانا تھا، جہاں پر مسئلہ کشمیر ان کے ایجنڈے پر سر فہرست رہے گا۔ بھارت پہنچ کر صد کو کن حالات کا سامنا کرنا پڑا اس کی تفصیل آئندہ سطور میں پیش کی جائے گی۔
♥