بیرسٹرحمید باشانی
ہمارے ہاں اکثر مسئلہ کشمیر پرمذاکرات کا مطالبہ اٹھایا جاتا ہے۔ آج بھی بہت لوگ پربجا طورپر امید ہیں کہ مذاکرات کے ذریعے اس مسئلے کا حل نکالا جا سکتا ہے۔ حالانکہ ماضی کے تجربات اس سے مختلف ہیں۔ یہ تجربات ثابت کرتے ہیں کہ مذاکرات صرف اس صورت میں سود مند ثابت ہو سکتے ہیں، جب مسئلے کے فریق خلوص اور دیانت داری سے مسئلے کا حتمی حل چاہتے ہوں۔ اس سلسلے میں ایک میمورینڈم میری نظر سے گزرا ہے ہے، جو17 دسمبر 1962 میں لکھا گیا۔
یہ میمورینڈم اس وقت کے امریکی صدر جے ایف کینیڈی ، بھارتی سفیر براج کمار نہرو اور اسسٹنٹ سیکرٹری آف سٹیٹ فلپ ٹالبوٹ کی گفتگو پر مشتمل ہے۔ سب سے پہلے بھارتی سفیر نہرو نے امریکی صدر سے معذرت کی کہ انہوں نے صدر سے اس دن ملاقات کا وقت مانگ لیا ، جو امریکی صدر کے لیے مصروف ترین دن تھا، لیکن یہ اس لیے ضروری تھا کہ ناسو کانفرنس سے پہلے بھارتی حکومت کشمیر کے مسئلے پر صدر سے بات چیت کرنا بہت ہی ضروری تصور کرتی تھی۔ ناسو کانفرنس دسمبر 17-21 کے دوران بہماس کے شہر ناسو میں ہونے والی تھی۔ اس کانفرنس کے بارے میں عام تاثر یہ تھا کہ اس میں بہت ہی اہم فیصلے کیے جائیں گے، جس کے اثرات جنوبی ایشیا کی سیاست اور مسئلہ کشمیر پر بھی پڑیں گے۔ اس لیے حفظ ماتقدم کے طور پر پنڈت نہرو کی ہداہت پر امریکہ اور برطانیہ میں بھارتی سفیروں کو ہدایت کر دی تھی کہ وہ امریکی صدر اور برطانوی وزیر اعظم سے ایک بار پھر مل کر مسئلہ کشمیر اور پاک بھارت تعلقات کے حوالے سے بھارتی نقطہ نظر واضح کریں ۔
ناسو کانفرنس میں واقعی امریکی صدر جے ایف کینیڈی اور برطانوی وزیر اعظم ہیرولڈ میکملن نے بہت ہی اہم فیصلے کیے، لیکن ان فیصلوں نے جنوبی ایشیا سے زیادہ یورپی سیاست کو متاثر کیا۔ اس کانفرنس میں امریکی صدر اور برطانوی وزیر اعظم نے اس بات پر اتفاق کیا کہ امریکہ برطانوی سب میرین کو نیو کلئیر مزائل دے گا۔ اس فیصلے نے یورپ کی سیاست میں ہلچل مچا دی۔ فرانسیسی لیڈر چارلس ڈیگال نے اس پر سخت ردعمل ظاہر کیا، اور آگے چل کر یورپی معاشی کمیونیٹی میں برطانوی شمولیت کے خلاف ویٹو کیا۔ یہ یورپی سیاست میں برطانیہ کے لیے ایک بہت بڑا دھچکا تھا۔
بہرکیف براج کمار نہرو نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے صدر کو بتایا کہ لندن میں بھارتی سفیر کو بھی یہی ہدایت دی گئی ہیں کہ وہ برطانوی وزیراعظم کے ساتھ اس طرح کی ملاقات کا اہتمام کریں ۔ بھارتی سفیر نے کہا کہ ان کی حکومت جناب صدر کو بتانا چاہتی ہے کہ پاکستان امریکی حکومت کی حمایت استعمال کرکے کشمیر کے مسئلے پرنا جائز فائدا اٹھا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستانی حکومت ایسا اس لئے کر رہی ہے ، کیونکہ اس کو یقین ہے کہ امریکی حکومت اس کی پشت پر کھڑی ہے۔ اور وہ بھارتی حکومت کو اس وقت تک فوجی امداد نہیں دے گی ، جب تک کہ بھارت کشمیر کے مسئلے پر پاکستان کو مطمئن نہیں کر لیتا۔
بھارتی حکومت یہ فرض کر رہی ہے کہ امریکی حکومت نے پاکستان کے ساتھ اس طرح کا کوئی وعدہ نہیں کیا ہے، اور بھارتی حکومت کو یہ یقین ہے کہ اگر اس معاملے میں پائی جانے والی غلط فہمیوں کو صاف کیا جائے تو اس سے معاملات حل کرنے میں کافی مدد مل سکتی ہے ۔ بصورت دیگر پاکستانی اس تاثر کے ساتھ مذاکرات کے میز پر بیٹھیں گے کہ وہ بھارت سے اپنی بات منوا سکتے ہیں۔ بھارتی حکومت یہ امید بھی رکھتی ہے کہ امریکی صدر کو اس بات کا احساس ہے کہ مسئلہ کشمیر اور پاکستان اور بھارت کے درمیان دیگر مسائل کی جڑیں کافی گہری ہیں، اور ان مسائل کو اتنی آسانی سے حل نہیں کیا جا سکتا ۔ بھارتی حکومت ان مذاکرات میں ایک اچھے ارادے کے ساتھ جا رہی ہے ، لیکن وزیراعظم کو امید ہے کہ صدر اس بات کا احساس کریں گے کہ اس سلسلے میں میں پیش رفت بہت ہی سست رفتار ہو سکتی ہے ۔ حالاں کہ پاکستان بظاہر اس معاملے میں تعاون کرنے کے لیے تیار ہے، جو اس سے پہلے نہیں دیکھا گیا ہے۔
صدر نے کہا کہ کہ وہ سفیر کی باتوں کا دو جواب دیں گے۔ ایک جواب ذاتی حیثیت میں اور دوسرا جواب سرکاری حیثیت میں ہو گا۔ صدر نے کہا کہ وزیر اعظم نے مذاکرات کے حوالے سے پارلیمنٹ میں جو بیان دیا ہے ، وہ غلط دیا ہے ، کیونکہ اس کی وجہ سے پاکستان کو موقع ملے گا کہ وہ یہ کہہ سکے کہ بھارت کشمیر کے مسئلے کو حل کرنے میں سنجیدہ نہیں ہے۔ پاکستانی اس وقت صرف بھارت پر ہی نہیں، امریکا کو بھی دباؤ میں لانا چاہتا ہے۔ اگلے چند ماہ میں غالبا امریکہ میں میں پاکستان کے دوستوں کی طرف سے یہ پوری کوشش ہوگی کہ وہ مجھ پر دباؤ ڈالیں۔ اس سلسلے میں بہترین پوزیشن یہ ہوگی کہ بھارت مذاکرات میں سنجیدہ کردار ادا کرے، اور مسئلے کے حل کے لیے تیار ہونے کا عندیہ دے۔
صدر نے کہا کہ آنے والے وقت میں مسئلہ کشمیر پر اور زیادہ مہارت سے سفارت کاری کی ضرورت ہوگی۔ ابھی ا گر بھارت میں یہ تاثر موجود ہے کہ مغرب بھارت کو مسئلہ کشمیر پر پاکستان کے ساتھ سمجھوتا کرنے پر مجبور کر رہا ہے، تو کوئی بھی بھارتی سیاستدان اس سلسلے میں کسی قسم کی بھی شرکت کرنے سے معذور ہوگا۔ صدر نے کہا کہ اس لیے یہ بہت ضروری ہے کہ ہم ایک دوسرے کے مسائل کو سمجھیں ۔ ہمارے بھی مسائل ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ بھارت ہمارے مسائل کا ادراک کرے۔ ہم یہ تسلیم کریں یا نہ کریں لیکن جہاں تک بھارت کی فوجی امداد کا سوال ہے، تو یہ سوال مسئلہ کشمیر سے سے جڑا ہوا ہے۔ صدر کو یقین ہے کہ سفیر صاحب صاحب اس معاملے کو سمجھتے ہیں، اور وہ اپنی حکومت کو بھی یہ بات سمجھائیں گے ۔
امریکی صدر نے واضح الفاظ میں کہا کہ ایوب خان پاکستان میں وہ واحد آدمی ہے ، جو مسئلہ کشمیر کا حل نکال سکتا ہے، اور اس سلسلے میں کوئی بھی فیصلہ کر کہ اس پر عمل کرا سکتا ہے۔ اور شاید انڈیا میں پنڈت جواہر لال نہرو وہ آدمی ہے، جو ایسا کر سکتا ہے۔ اس لیے مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے یہی مناسب ترین وقت ہے۔امریکہ اور برطانیہ دونوں کا اس بات پر اتفاق تھا کہ اگر صدر ایوب اور پنڈت نہرو کشمیر پر کوئی فیصلہ نہیں کر سکتے تو ہھر یہ کام کوئی بھی نہیں کر سکےگا۔ ثالثی کی کوشش ناکام ہو چکی تھی، چنانچہ دونوں نے اس بات پر اتفاق کیا کہ دونوں ملکوں کو ہر صورت میں مزاکرات کے میز پر بٹھایا جائے، اور ان پر یہ بات واضح کی جائے کہ یہ ان کے پاس آخری موقع ہے۔
امریکہ اور برطانیہ کی یہ سخت پوزیشن دیکھتے ہوئے نہرو نے یہ فیصلہ کیا کہ یہ بات واضح کی جائے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان مسائل کی جڑیں بہت پرانی ہیں، اور ان کو اتنا جلدی حل نہیں کیا جا سکتا تاکہ مذاکرات کے دوران اور ناکامی کی صورت میں اس کے بعد امریکی اور برطانوی دباؤ سے بچا جا سکے۔ لیکن امریکی اور برطانوی موقف سے مزاکرات کے حوالے سے دباو اور توقعات پہلے ہی کافی بڑھ چکی تھیں، جس کے نتیجے میں اگلا برس یعنی سن انیس سو تریسٹھ ایک لحاظ سے مذاکرات کا سال قرار پایا۔ اس سال پاکستان اور بھارت کے درمیان مذاکرات کے چھ طویل دور ہوئے، جن کا احوال آئندہ کبھی پیش کیا جائے گا۔
♠