امریکی ایوان نمائندگان نے الحان عمر کی حمایت میں بل پاس کردیا

s

امریکی ایوان نمائندگان نے ، بروز منگل کو الحان عمر کی حمایت میں اسلامو فوبیا سے نمٹنے کے لیے ایک بل پاس کیا ہے جس کے مطابق امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ میں ایک نئی پوسٹ قائم ہوگی جو دنیا بھر میں اسلام اور مسلمانوں سے متعلقہ توہین آمیز پروپیگنڈے کا جائزہ لے گی۔ اس سے پہلے سٹیٹ ڈیبپارٹمنٹ میں ایسی ہی ایک پوسٹ قائم ہے جو دنیا بھر میں یہودیوں سے متعلق توہین آمیز پراپیگنڈے کا جائزہ لیتی ہے۔

یہ بل مسلمان رکن کانگریس الحان عمر نے پیش کیا تھا جس پر بحث کے بعد ایوان نمائندگان نے اسے منظور کیا ہے۔ ابھی یہ دیکھنا ہے کہ کیا یہ بل امریکی سینٹ سے بھی منظور ہوگا کہ نہیں؟۔

الحان عمر کا تعلق صومالیہ سے ہے جہاں خانہ جنگی سے تنگ آکر ان کے خاندان نے امریکہ میں پناہ لی۔ تعلیم حاصل کی اور ڈیموکریٹک پارٹی سے سیاست کا آغاز کیا اور 2018 میں رکن کانگریس منتخب ہوئی تھیں۔ امریکہ میں ان کو ایک مسلمان کی حیثیت سے پناہ ملی، یہاں ان کو تعلیم حاصل کرنے اور سیاست کرنے کے یکساں مواقع ملے اور انہی مواقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے وہ رکن کانگریس منتخب ہوئیں۔یہ امریکہ کی سیکولر سیاست ہی ہے جس کی بنا پر انہیں تمام رنگ و نسل اور مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے افراد نے ووٹ دیا۔ ان کے ساتھ کسی بھی سطح پر کوئی ترجیحی سلوک نہ ہوا۔

لیکن الحان عمر نے رکن کانگریس منتخب ہوتے ہی، ملکی سیاست پر گفتگو کرنے کی بجائے اسرائیل مخالف بیان دینا شروع کردیئے تھے،انھوں نے کہا کہ امریکہ پر یہودیوں کا قبضہ ہے وہ پیسے کے زور پر امریکہ میں فیصلے کرتے ہیں اس بیان پر کافی شور اٹھاتھا جس پر انھوں نے اپنے ٹویٹ ڈٰیلیٹ کردیئے تھے۔ اور کہا کہ ان کے ٹویٹ کی غلط تشریح کی گئی ہے۔ پھر مسلمانوں کی ایک تنظیم کے اجتماع میں انھوں نے کہاکہ امریکہ میں مسلمانوں کے ساتھ ترجیحی سلوک ہوتا ہے اور انہیں دوسرے درجے کا شہری سمجھا جاتا ہے وغیرہ وغیرہ اور ان کے خلاف توہین آمیز مہم چلائی جاتی ہے۔

الحان عمر وقتا فوقتا اس قسم کےمتنازعہ ٹویٹ کرتی رہتی ہیں جس پر پچھلے ماہ ریپبلکن رکن کانگریس نے انہیں دہشت گرد قرار دیا جس پر ایک دفعہ پھر شور اٹھا۔ ڈیمو کریٹس ارکان نے اس بیان کی سخت مذمت کی اور کہا کہ ریپبلکن کو کوئی حق نہیں پہنچتا کہ وہ کسی رکن کانگریس کو دہشت گرد قرار دیں اور پھر اس دوران الحان عمر نے یہ بل پیش کیا۔

الحان عمر کے اپنے ملک ، صومالیہ میں مسلمانوں کی دہشت گرد تنظیم الشباب کیا مظالم ڈھا رہی ہے یا دنیا بھر میں مسلمانوں کی دہشت گرد تنظیمیں کیا کررہی ہیں یا حماس اپنے شہریوں کا مذہب کے نام پر استحصال کررہی ہے ۔ اس پر بات کرنے کی بجائے اسے اسرائیل کے مظالم کی یاد ستاتی ہے۔

مسلمان آزادی اظہار رائے چاہتے ہیں لیکن دوسرے کو یہ آزادی دینے کو تیار نہیں۔اسلاموفوبیا مسلمانوں کا ایک پراپیگنڈا ہتھیار ہے۔ جس کی آڑ لے کر یہ نہ صرف دہشت گردی کی کاروائیوں پر پردہ ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں بلکہ اپنے توسیع پسندانہ عزائم کو آگے بڑھاتے ہیں۔مسلمان ارکان کا المیہ یہ ہے کہ اول تو وہ جمہوریت کے خلاف ہوتے ہیں اور اگر منتخب ہوجائیں تو پھر اسرائیل اور امریکہ کے خلاف بیان بازی شروع کردیتے ہیں۔

محمد شعیب عادل

Comments are closed.