ظفر آغا
اتر پردیش میں گھبرائی بھارتیہ جنتا پارٹی نے سماج وادی پارٹی کے خلاف چناوی جہاد چھیڑ دیا ہے۔ اس کالم کے لکھے جاتے وقت لکھنؤ سے یہ خبریں آ رہی تھیں کہ وہاں اکھلیش یادو کے قریبی ساتھیوں کے گھروں پر انکم ٹیکس کی ریڈ چل رہی تھی۔ یہ اس بات کی کھلی دلیل ہے کہ مارچ 2022 میں اتر پردیش میں ہونے والے اسمبلی چناؤ میں بی جے پی گھبرائی ہوئی ہے۔ اس کو یہ اعتماد نہیں ہے کہ وہ ایک صاف ستھرے چناوی مقابلے کے ذریعہ اتر پردیش کا چناؤ جیت سکے۔ لہٰذا اب حکومت اتر پردیش میں ایسے سیاسی حریفوں کے خلاف انکم ٹیکس کا سرکاری حربہ استعمال کر رہی ہے۔
مودی حکومت کی اصل منشا یہ ہے کہ انکم ٹیکس ریڈ کے ذریعہ اپنے سیاسی حریفوں کو مالی طور پر کنگال کر دو تاکہ وہ مالی اعتبار سے چناؤ لڑنے کی حیثیت میں ہی نہ رہ جائیں۔ دوسری جانب بی جے پی چناؤ میں پانی کی طرح پیسہ بہا کر دھیرے دھیرے چناؤ کا رخ اپنے حق میں کر سکے۔ لیکن اس طرح عین چناؤ کے موقع پر مودی حکومت نے انکم ٹیکس محکمے کا اپنے سیاسی حریف اکھلیش یادو کے خلاف استعمال کر یہ تسلیم کر لیا کہ یو پی اسمبلی چناؤ اس کے لیے ٹیڑھی کھیر بن چکا ہے۔
یہی سبب ہے کہ وزیر اعظم خود بھی گھبرائے ہوئے ہیں۔ تب ہی تو ان دنوں وہ دہلی میں کم اور اتر پردیش میں زیادہ وقت گزار رہے ہیں۔ کبھی کاشی تو کبھی متھرا تو کبھی لکھنو اور کبھی ایودھیا میں وہ نظر آتے ہیں۔ کبھی کاشی میں کاشی کاریڈور کا افتتاح تو کبھی یو پی کے کسی دوسرے شہر میں چھ لین کا ایکسپریس وے افتتاح کرتے نظر آتے ہیں۔ گھبراہٹ کا یہ عالم ہے کہ بی جے پی اتر پردیش میں ہر وہ سیاسی کارڈ استعمال کر رہی ہے جس کے ذریعہ وہ چناؤ جیت سکے۔
کاشی، متھرا اور ایودھیا مندروں کا استعمال ہندو ووٹ بینک کو اپنے حق میں کرنے کے لیے ہو رہا ہے۔ چناؤ کسی طرح ہندو–مسلم کا رخ لے لے اس کے لیے اورنگ زیب بنام شیواجی جیسے نعروں کا استعمال شروع ہو چکا ہے۔ پھر مودی جی کا دوسرا کارڈ ’ڈیویلپمنٹ‘ ہوتا ہے۔ اس کے لیے وہ خود کبھی صوبہ میں ایک نئے انٹرنیشنل ائیرپورٹ تو کبھی ایک نئی ایکسپریس وے ک افتتاح کرتے نظر آ رہے ہیں بی جے پی کو ان حربوں پر بھی ابھی تک یقین نہیں ہے۔ اس کے لیے سب سے غریب طبقہ کو مفت راشن بانٹا جا رہا ہے۔ سرکاری اسکول میں پڑھنے والے بچوں کے والدین کو بچوں کے اسکول ڈریس کے لیے رقم دی جا رہی ہے۔ یعنی گھبرائی بی جے پی والے درمے سخنے ہر طرح سے اتر پردیش چناؤ جیتنے پر کمر کس چکی ہے۔
لیکن آخر بی جے پی خیمے میں اتر پردیش چناؤ کو لے کر یہ گھبراہٹ کیوں ہے؟ اس کے کئی اہم اسباب ہیں۔ سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ یوپی ہندوستانی سیاست کا دل ہے۔ یہں سے سب سے زیادہ 80 ممبران چن کر لوک سبھا پہنچتے ہیں۔ کہتے ہیں جس نے لکھنؤ جیتا، اس نے دہلی جیتا۔ اس لیے اگر 2022 کے صوبائی چناؤ میں یو پی نکل گیا تو گویا سنہ 2024 کے لوک سبھا چناؤ میں مودی جی کے ہاتھوں سے ہندوستان بھی نکل سکتا ہے۔ لیکن مودی جی کو سب سے بڑی پریشانی اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ آدتیہ ناتھ یوگی ہو گئے ہیں۔ یوگی جی نے اتر پردیش میں پانچ سالوں میں ایسا ڈنڈا راج چلایا ہے کہ اب چناؤ کے موقع پر یو پی کا ہر طبقہ یوگی کے خلاف سر اٹھا رہا ہے۔
یوگی جی کے راج میں سیاسی کارکنان سول سوسائٹی ممبران سے لے کر چھوٹے موٹے صحافی تک اگر کسی نے زبان کھولی تو اس کو جیل میں ٹھونس دیا گیا۔ محض اتنا ہی نہیں، یوگی جی کے سیاسی مخالفین کا کہنا ہے کہ پچھلے پانچ سالوں میں وہ کھلے بندوں ریاست میں خود اپنی دلت پر مبنی کھلا ’ٹھاکر راج‘ چلا رہے تھے۔ اتر پردیش میں ان کے راج میں ٹھاکر اننگ چل رہا تھا۔ کبھی ہاتھرس سے دلت لڑکی کی عصمت دری کی خبر تو کبھی کانپور کے برہمن دبنگ کی پولیس کے ہاتھوں انکاؤنٹر کی خبریں آئے دن آتی رہتی تھیں۔
صوبہ میں ابھی تک یوگی جی کی دہشت کا یہ عالم ہے کہ عام آدمی کھل کر سیاسی گفتگو کرنے سے کتراتا ہے۔ صرف اتنا ہی نہیں، وہ نچلی اور غریب پچھڑی ذاتیں جو سنہ 2014 سے بی جے پی کی گود میں جا بیٹھی تھیں، وہ بھی ٹھاکروں کی دراز دستی سے پریشان تھیں۔ حد تو یہ ہے کہ اتر پردیش کا سب سے کٹر بی جے پی برہمن طبقہ بھی یوگی جی سے بہت خوش نظر نہیں آ رہا ہے۔ پھر کووڈ-19 کی دوسری لہر میں یو پی حکومت کی لاپروائی کے سبب ہزاروں لوگ مارے گئے۔ ساتھ ہی سارے ملک میں ان دنوں جو مہنگائی ہے اس سے ہر کس و ناکس پریشان ہیں۔
ان تمام اسباب کے تحت مودی جی کے لیے اتر پردیش چناؤ کو آسانی سے ہندو–مسلم بٹوارے کی لائن پر دھکیل پانا آسان نہیں نظر آ رہا ہے۔ مشکل یہ ہے کہ یو پی میں چناؤ دھرم نہیں بلکہ ذات کا رخ لے رہا ہے۔ اتر پردیش کے سماج یوگی جی کے ٹھاکر راج کے خلاف جو غصہ ہے اس کے سبب وہ مختلف ذاتیں جو مسلم مخالفت میں بطور ایک متحد ہندو ووٹ بینک بی جے پی کو ووٹ ڈال کر چناؤ جتواتی تھیں، اب وہ بطور متحد ہندو نہیں بلکہ ذات کی لائن پر سوچ رہی ہیں۔
اتر پردیش سے یہ خبر بھی آ رہی ہے کہ غریب اور نچلی پسماندہ ذاتیں، دلتوں کا ایک بہت بڑا طبقہ اور حد یہ ہے کہ برہمن ذات کا بھی ایک گروہ اس تلاش میں ہے کہ کسی طرح یوگی کو حکومت سے باہر کرو۔ پھر مسلمانوں میں یہ ہوا چل رہی ہے کہ جو بی جے پی کو ہرا سکتا ہو اس کو ووٹ دو۔ یہ اگر یو پی میں اتنے اہم سماجی گروہ ایک ساتھ اکٹھا ہو گئے تو بی جے پی کے لیے یو پی چناو میں لینے کے دینے پڑ جائیں گے۔ اور مودی جی سمیت بی جے پی کو اسی بات کی گھبراہٹ ہے۔ تب ہی تو لکھنؤ میں اب بی جے پی مخالفین کے گھروں پر انکم ٹیکس کا دھاوا چل رہا ہے۔ آگے آگے یو پی چناؤ میں اس بار حکومت کا کیا کیا قہر ٹوٹتا ہے، اس کا انتظار کیجیے۔ الغرض یو پی میں اس بار چناؤ نہیں، چناوی مہابھارت ہوگا۔
روزنامہ قومی آواز، نیو دہلی