مہر جان
مینوفیکچرڈ کامن سینس کا ڈومین فلسفہ میں لسانیات ہے۔ لسانیات کا تعلق ذہن سے ہے لیکن بعض مفکرین لسانیات کو اس قدر اہمیت نہیں دیتے ، وہ اسے شاہد لفظوں کا کھیل ، آسمانوں سے اوپر کی بات سمجھتے ہیں لیکن دوسری طرف بعض مفکرین بشمول گرامشی جو کہ خود اک ماہر لسان تھے فوک لور (لسانیت) کو کامن سینس کی فلاسفی کہتے ہیں ، اور بعض ماہر لسانیات لسان کو ایک ایسی چٹان سے تشبیہہ دیتے ہیں جس کی باریکیوں میں جاکر کوئی جیولوجسٹ تو کوئی سائنٹسٹ تو کوئ فلاسفر بھی بن سکتا ہے ،۔
بہر حال پوسٹ کالونیل ڈسکورس میں لسانیات سے مفر ممکن نہیں ، کامن سینس پہ اہل لسان نے بہت کچھ لکھا ہے کہ کسی بھی حاکم قوم کی اجارہ داری لسانیات کے دائرہ کار میں رہ کر کس قدر محکوم کی کامن سینس کی بناوٹ کا سبب بنتی ہے ،اس پورے تناظر یعنی کامن سینس کی مصنوعی تشکیل میں کلچر(تہذیب ) کیا اہمیت اختیار کرتا ہے یہ بنیادی نقطہ جاننے کی اشد ضرورت ہے ، زبان کی دقیق مباحث سے ہٹ کر اک سادہ فہم مثال دینے کی کوشش کروں گا تاکہ دوستوں پہ یہ بات کھل کر واضح ہوجائے کہ زبان اور ذہن کا آپس میں کیا تعلق ہے اور یہ کامن سینس کے لیے کس قدر اہمیت کا حامل ہے ۔
کہا جاتا ہے کہ لسانیات میں علامات کے بغیر سوچنا محال ہے ، اب علامت دو اجزاء میں منقسم ہے ایک کو سگنیفائیر اور دوسری کو سگنفائیڈ کہا جاتا ہے ، یعنی جب کوئی شخص اک لفظ ادا کرتا ہے اس کی ادائیگی کو سگنیفاہیر کہا جاتا ہے اس لفظ سے جو تصور ذہن میں پیدا ہوتا ہے اسے سگنیفائیڈکہا جاتا ہے ، مینوفیکچرڈ کامن سینس میں سیگنیفائیڈ (تصور) پہ کنٹرول کالونائزر کا ہوتا ہے آپ کو علامات کے ذریعے ذہنی طور پہ اتنا پست کیا جاتا ہے کہ آپ چمچ و کانٹے سے کھانا کھانے کو (علامات) اعلی تہذیب سمجھتے لگتے ہیں ، انگریزی بولنے کو علم اور کسی بھی لکھاری کے چار پانچ اصطلاحات و مصنفین کے ناموں سے مرعوب ہوکر انہیں بڑا دانشور سمجھتے ہیں ،کالونائزڈ کے لکھاری خاص طور پہ مرعوب ہوتے ہیں حالانکہ ایسا کچھ نہیں ہے بس یہ سارابساط پہ رچایا گیا کھیل ہے اور آپ کو پتہ تک چلنے نہیں دیا جاتا کہ اجارہ داری کس طرح کامن سینس کو مینوفیکچر کررہا ہوتا ہے ۔
یعنی آپ کی قومی شناخت ، قومی تہذیب ، قومی شعور پہ پہلا وار ہوتا ہے جبکہ بقول فینن “قومی تہذیب آپ کی پناہ گاہ ہوتی ہے”گبین جیسا مورخ جو ماہر تہذیب ہےاس امر پہ متفق ہے کہ کسی بھی قوم کی سیاسی شناخت چھن جانے کے بعد اس قوم کی تہذیب اس قوم کی محافظ و پناہ گاہ ہے جس طرح کالونائزر اجارہ داری (غیر مرئی قوت) کی بدولت پولیٹکل و سول سوسائٹی کے ذریعے قومی تہذیب کے مورچہ میں نقب زن ہوتا ہے۔ اسی طرح قومی تہذیب و قومی شعور کے مورچہ میں رہنے والا ہر ایک کالونائزر کے خلاف مزاحمت کار ہوتا ہے ، کیونکہ کسی بھی قوم میں قومیت کی اجارہ داری فطری و تاریخی عوامل کے ذریعے کم و پیش موجود ہوتی ہے۔
گرامشی اسے سپر اسٹریکچر کا نام دیتا ہے جس کے ذریعے دشمن کا مقابلہ کیا جاسکتا ہے گر کہیں یہ اجارہ داری وجود نہ رکھتی ہو اس کے لیے گرامشی کمیونسٹ پولیٹکل پارٹی کو “ماڈرن پرنس”بننے کا مشورہ تک دیتا ہے کہ میکاولین طرز اختیار کرکے یہ اجارہ داری پولیٹکل و سول سوسائٹی کی بدولت حاصل کی جائےکیونکہ گرامشی کے لیے فقط اقتصادیات کی جدلیات جسے بیس اسٹرکچر (ذرائع پیداوار ) کہا جاتا ہے بنیاد نہیں ، کیونکہ ان کی آنکھوں کے سامنے شکست و ریخت کا عمل جاری و ساری رہتا ہے ، یہ نقطہ گرامشی اک طرح سے لینن سے اخذ کرتا ہے ، جبکہ آرتھوڈکس مارکسسٹ بیس اسٹریکچر کو بنیاد مانتے ہیں ،
مارکس اسی بیس اسٹرکچر کی بنیاد پہ کالونائزڈ ہندوستان کا مقدمہ لڑ رہا تھا کہ سماجی تبدیلی (ذرائع پیدوار کی تبدیلی اور پہ پر ولتاریہ کا کنٹرول ) سے ڈی کالونائیزیشن ممکن ہوگی کیونکہ مارکس سماج کی ترقی پہ یقین رکھتے تھے اور سماج کی ترقی میں بیس اسٹرکچر کو بنیاد مانتے تھے جبکہ معاملہ اس کے برعکس نکلا ، جس کا احساس بعد میں مارکس کو خود بھی ہوا کیونکہ آج یورپ کے چمک دمک میں ہندوستان کا خون و سرمایہ شامل ہے اور ڈی کالونائیزیشن یورپ کی اپنی مجبوری کے باعث بنا ۔ یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ لینن و گرامشی کے لیے فقط اقتصادیات کا میدان اہم نہیں بلکہ کلچر کی اجارہ داری بھی اہم ترین ہے اور اس کے بنانے کے لیے گرامشی رضامندی اور فورس دونوں پہ یقین رکھتے ہیں جبکہ دوسری طرف یہاں فطری و تاریخی طور سپر اسٹرکچر (نیشنل ازم )بنا ہوا ہے اور اسی سپر اسٹرکچر کی بنیاد آج تک مزاحمت مختلف مراحل میں جاری و ساری ہے۔
آج ریاستی سپر اسٹرکچر کو جس مزاحمت کا سامنا ہے وہ ہمارا قومی شعور و قومی تہذیب ہے جو مختلف تاریخی عوامل سے گذر کر قومی روح کو پروان چڑھا رہا ہے۔ بلوچ نیشنل ازم کی تاریخ اس امر کے حوالے سے گواہ ہے کہ پانچ مراحل میں بلوچ قوم پہاڑوں میں مورچہ زن اپنی قومی مزاحمتی روایات کے بدولت ہوئے ہیں ، جسے آج کچھ نادان صحافی و نادان لکھاری قبائلیت کا رنگ دیتے ہیں اور انہیں قبائلی راہنماء گردانتے ہیں انکی یہ جنگ بیشک کمزرو تھی لیکن انکی سوچ قومی تھی ۔بلوچستان یونیورسٹی کے ایک پروفیسر ُکنڈی کے مطابق جب وہ ریسرچ کے حوالے سے قلات تشریف لےگئے تو وہاں شاہی محل میں انکی ملاقات ایک بوڑھے شخص سے ہوئی جو نواب نوروز خان کا اک واقعہ بیان کرتے ہیں کہ کیسے نواب نوروز خان خان آف قلات کو قومی جنگ کے لیے اور ہتھیار دینے کے لیے راضی کررہے تھے جب خان آف قلات راضی نہ ہوا تو نواب نوروز خان غصے میں خان آف قلات اور کالونائزرز کے لیے بہت سخت و ہتک آمیز الفاظ کہے جو یہاں ناقابل بیان ہے ۔
آغا کریم سے پہلے اور آج تک کی مزاحمتی جنگ ریاست کے خلاف جو لڑی گئی وہ اسی سپر اسٹرکچر (قومیت) کی بنیاد پہ لڑی گئی ، جو تاریخی و فطری طور پہ جاری و ساری ہے اور اس کے مدمقابل ریاستی اجارہ داری بھی پولیٹکل و سول سوسائٹی کی بدولت زور آزمائی کررہی ہے اور بلوچ کی پناہ گاہ انکی قومی تہذیب بنی ہوئی ہے جس نے ہر شہر و دیہات میں کالونائزر کو اجنبی بننے پہ مجبور کردیا ہے ، کالونائزر ہاتھ میں بندوق لیے ،طاقت کے خمار میں بلوچستان کے بلوچ علاقوں میں جہاں کہیں بھی جاتا ہے وہ اپنے آپ کو وہاں اجنبی پاتا ہے یہاں تک کہ بیوروکریٹ بھی یہ اجنبی پن محسوس کرتے ہیں اس اجنبی پن کو سہنا انکی ایک مجبوری بن چکی ہے کیونکہ بلوچ سرزمین کے بغیر ان کا اپنا وجود خطرے سے دو چار ہے ، اپنے اوپر جبر اور کالونائزڈ پہ مسخ شدہ لاشوں کی صورت میں ظلم نہ صرف انکی لاشعور میں بلکہ انکی آنے والی نسلوں کے لاشعور میں پنپ رہا ہے اسی جبر کی وجہ سے وہ آخرکار بیگانگی کا شکار ہوتے ہیں جس کی طرف ھیگل نے غلام و آقا کی جدلیات میں اشارہ کیا تھا ، دوسری طرف غلامی کا احساس محکومی (بیگانگی) انہیں کرب سے نکال کر اسے مزاحمت کی راہ میں ڈال کر اپنی وجود تراش رہا ہے ۔
اور وہ جو اس قومی تہذیب و قومی شعور کو پروان چڑھا رہے ہوتے ہیں ان کے لیے یہ تہذیب چٹان جیسی اہمیت اختیار کرکے پناہ گاہیں بن جاتی ہیں جہاں وہ بغیر بندوق کے بھی اک مزاحمتکار کا روپ دھار لیتے ہیں ، غسان کفانی جنہیں اپنے الفاظ پہ اتنا قابو تھا کہ مجال ہے کوئی انٹرویو کرنے والا اپنے مقصد کی بات ان کی مُنہ سے اگلوائے، ان کے بارے میں مشہور ہے “ایک ایسا سپاہی جنہوں نے اک گولی نہیں چلائی” بلوچ تاریخ میں بابا مری ایسی شخصیت تھے جو لفظوں کی حرمت سے واقف تھے جو اک اک لفظ پہ سوچتے تھے کہ جو وہ کہہ رہا ہیں مخاطب ان کے الفاظ سے کیا مطلب لے رہا ہے گویا وہ اپنے مخاطب کو جانتے تھے۔
بابا مری کے سامنے نہ صرف بلوچ نیشنل ازم کی تاریخ پڑی تھی بلکہ گرامشی کی طرح زار روس کی شکست و ریخت پہ بھی اُن کی نظر تھی ، زار روس کی شکست و ریخت کے تجربہ کی روشنی میں گرامشی جیسے مارکسسٹ جنہوں نے اپنی زندگی کے بیس سال جیل میں گذارے ، فقط اقتصادیات کی جدلیات یا بیس اسٹرکچر کو بنیاد بنانے کا یکسر مخالف رہے اور سپر اسٹرکچر ، کلچرل اجارہ داری یا پاپولر نیشنل کو اقتصادیات کی جنگ سے پہلے کی لازمی جنگ قرار دی ، آج جب بابا مری مستقبل میں سوشلزم کی بات کرتے ہیں وہ ھیگل کی طرح اس تاریخی و فطری عمل کو جانتے ہیں کہ اس اسٹیج کا ہونا تاریخی و فطری عمل میں کس قدر لازمی ہے وہ اس امر سے بخوبی واقف ہیں کہ کسی قوم کی آذادی کے لیے قومی شعور کو سماجی شعور میں بدلنا بعد کاعمل ہے ۔
اب ضرورت سماجی شعور کو قومی شعور میں بدلنے کی ہے ، وہ اسی لیے کالونائزر کی دی ہوئ سماجی ترقی کو بجائے ترقی کے استحصالی حربہ سمجھتے ہیں جو قومی شعور کے سامنے بل باندھا ہوتا ہے جبکہ قومی شعور ،جو کہ مزاحمت کے بدولت طفلانہ اسٹیج سے ہوکر پنپ رہا ہے جس کی طرف فینن نے واضح طور پہ لکھا ہے کہ “تاریخ ہمیں یہ واضح طور پہ یہ بتاتی ہے کہ استعمار کی خلاف جنگ براہ راست قومیت کے خطوط پہ لڑی نہیں جاتی ۔ مقامی باشندہ ایک عرصہ دراز تک چند خاص بدعنوانیوں مثلاً جبری محنت ، جسمانی سزا ، تنخواہوں میں عدم مساوات ، محدود سیاسی حقوق وغیرہ کو دور کرنے میں اپنی توانائی صرف کرتا رہتا ہے ۔ انسانیت پر ظلم کے خلاف جمہوریت کی یہ جنگ آہستہ آہستہ اور بعض اوقات وقت طلب مراحل سے گذر کر ، خیالی بین الاقوامیت کے جھمیلوں سے نکلتے ہوئےقومیت کی صورت رونما ہوتی ہے۔
نوٹ:یہاں تہذیب وسیع تر معنوں میں نہیں لیا گیا ہے
۔(جاری ہے)۔
میں نیشنل ازم پہ کاربند کیوں ہوں ؟۔حصہ چہارم
میں نیشنل ازم پہ کاربند کیوں ہوں؟۔حصہ سوم
میں نیشنل ازم پہ کاربند کیوں ہوں۔حصہ دوم
میں نیشنل ازم پر کاربند کیوں ہوں؟
Pingback: میں نیشنل ازم پہ کاربند کیوں ہوں ؟۔۔ حصہ ششم – Niazamana
Pingback: میں نیشنلزم پہ کاربند کیوں ہوں؟ حصہ ہفتم – Niazamana
Pingback: میں نیشنل ازم پہ کاربند کیوں ہوں؟ حصہ دہم – Niazamana
Pingback: میں نیشنل ازم پہ کاربند کیوں ہوں؟۔حصہ 14 – Niazamana