پاکستان میں ایک مسلم خاتون کو واٹس ایپ پر مذہب سے متعلق توہین آمیز پیغام ارسال کرنے کے جرم میں عدالت نے سزائے موت کا فیصلہ سنایا ہے۔ ملزمہ کی عمر 26 برس بتائی گئی ہے۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کی اطلاعات کے مطابق پاکستانی شہر راولپنڈی میں مقامی عدالت نے بدھ کے روز ایک مسلم پاکستانی خاتون کو واٹس ایپ پر توہین مذہب اور توہین رسالت پر مبنی مواد ارسال کرنے کے جرم میں سزائے موت دینے کا فیصلہ سنایا۔
مسلم اکثریتی ملک پاکستان میں توہین مذہب ایک انتہائی حساس اور خطرناک معاملہ سمجھاجاتا ہے۔ اس جرم کے مرتکب افراد کو موت کی سزا دی جاسکتی ہے۔ لیکن ابھی تک کسی شخص کو اس جرم کے لیے عملی طور پر پھانسی کی سزا نہیں دی گئی۔
عدالت کے مطابق 26 سالہ پاکستانی خاتون کو مئی 2020 میں گرفتار کیا گیا تھا۔ ان پر اپنے واٹس ایپ اسٹیٹس پر دین اسلام کے حوالے سے ‘توہین آمیز مواد‘ شائع کرنے کا الزام عائد کیا گیا۔ بتایا گیا ہے کہ جب مذکورہ خاتون کے دوست نے انہیں یہ متنازعہ اسٹیٹس تبدیل کرنے کا کہا تو انہوں نے یہ مواد اسی کو فارورڈ کر دیا۔
دریں اثناء عدالت نے ملزمہ کو سزائے موت کے ساتھ ساتھ20 سال قید کا فیصلہ بھی سنایا۔
سن 1947 میں پاکستان کے قیام کے وقت توہینِ مذہب کے قوانین برطانوی حکومت سے ورثے میں ملے تھے۔ ان میں توسیع اور شدت سن 1977 سے سن 1988 کے دوران پاکستان کے سابق فوجی صدر جنرل ضیا الحق نے متعارف کرائی تھیں۔
بین الاقوامی آزادی مذہب کے امریکی کمیشن کے مطابق اس وقت پاکستانی جیلوں میں تقریباً 80 افراد توہین مذہب کے الزام میں قید ہیں جن میں سے نصف سے زائد ملزمان کو عدالت عمر قید یا پھر موت کی سزا سنا چکی ہے۔
پاکستان میں توہین مذہب کے زیادہ تر واقعات میں مسلمان ہی اپنے دیگر ہم مذہب مسلمانوں پر سنگین الزامات لگاتے ہیں۔ حقوق انسانی کے سرگرم کارکنان کے مطابق مذہبی اقلیتوں میں خصوصاً مسیحی برادری کو اکثر نجی نوعیت کے اختلافات کی وجہ سے توہین مذہب کے متنازعہ قانون کا نشانا بنایا جاتا ہے۔
واضح رہے گزشتہ دسمبر میں سری لنکا کے ایک شہری کو، جو پاکستانی شہر سیالکوٹ کی ایک فیکٹری میں بطور مینیجر کام کرتا تھا، مشتعل ہجوم نے توہین مذہب کے الزام میں تشدد کا نشانہ بنا نے کے بعد اس کی لاش کو بے رحمی سے آگ لگادی گئی تھی۔
سن 2018 میں مسیحی خاتون آسیہ بی بی کے توہین مذہب سے جڑے ایک مقدمے میں سپریم کورٹ سے رہائی کے بعد بہت بڑے مظاہرے دیکھنے میں آئے تھے۔ جس کے بعد آسیہ بی بی کو بیرون ملک منتقل ہونا پڑا۔
dw.com/urdu