سید خرم رضا
آزادیٔ ہند کے بعد ملک نے بے سہارا مسلمانوں کو نہ صرف ترقی کرتے بلکہ اقتدار میں شریک ہوتے بھی دیکھا، جہاں مولانا آزاد ملک کے پہلے وزیر تعلیم بنے وہیں سات ریاستوں کے وزیر اعلی مسلمان بھی ہوئے۔
میں اس میں نہیں جانا چاہتا کہ آزادی سے پہلے کیا ہوا، ملک تقسیم کیوں ہوا اور اس کے بعد کیا کچھ ہوا۔ لیکن ایک حقیقت سے چشم پوشی نہیں کی جا سکتی کہ جب کچھ ہندوستانی مسلمانوں نےاپنے لئے ایک علیحدہ ملک کا انتخاب کر لیا تھا اس وقت ہندوستان میں جو مسلمان رہ گئے تھے یا تو وہ اپنے وطن کو چھوڑنا نہیں چاہتے تھے، یا ان میں ہمت کی کمی تھی، یا ان کے پاس ذرائع اور وسائل نہیں تھے۔ بہر حال وجہ کوئی بھی ہو لیکن اس میں بھی کوئی دو رائے نہیں کہ اس وقت کے غیر مسلم ہندوستانی رہنماؤں نے بڑے دل کا اور دور اندیشی کا مظاہرہ کیا۔ ان رہنماؤں میں مہاتما گاندھی، جواہر لال نہرو، سردار پٹیل اور بی آر امبیڈکر کے نام سرفہرست ہیں۔ ان رہنماؤں کی دور اندیشی ہی تھی کہ جہاں تقسیم کے لئے ذمہ دار مسلم لیگ انتخابات میں حصہ لے سکتی ہے، وہیں مجلس اتحاد المسلیمین جیسی صرف مسلمانوں کے مفاد کی بات کرنے والی سیاسی پارٹی بھی ہندوستان کے کسی بھی کونے سے انتخابات لڑ سکتی ہیں۔
آزادی کے بعد کئی اتار چڑھاؤ آئے۔ ملک نے کئی فرقہ وارانہ فسادات دیکھے، تو پچھڑی ذاتوں کو اقتدار سنبھالتے بھی دیکھا۔ اس سفر کے دوران ملک نے بے سہارا مسلمانوں کو ترقی کرتے دیکھا اور صرف ترقی کیوں بلکہ اقتدار میں شریک ہوتے دیکھا۔ اس میں جہاں مولانا آزاد ملک کے پہلے وزیر تعلیم بنے وہیں سات ریاستوں کے وزیر اعلی مسلمان بھی ہوئے جن میں برکت اللہ خان، عبدالرحمان انتولے، محترمہ انورا تیمور، عبدالغفور، محمد کویا، ایم فاروق، شیخ عبداللہ، فاروق عبداللہ، مفتی محمد سعید، غلام نبی آزاد اور عمر عبداللہ وغیرہ شامل ہیں۔
اِس وقت جو سیاسی حالات ہیں اس میں ایسا دوبارہ ہوتا نظر نہیں آ رہا، اور اس کے لئے ہماری قیادت اور جس کے پاس آج اقتدار ہے اس کی قیادت ذمہ دار ہے۔ جو سیاسی پارٹی یا سیاسی سوچ آج ملک میں برسراقتدار ہے اس کو سمجھ آ گیا تھا کہ ملک کو مذہبی نکات پر تقسیم کئے بغیر وہ اقتدار حاصل نہیں کر سکتی اس لئے جہاں اس سوچ نے اپنے لئے زمینی کام کرنا شروع کیا وہیں انہوں نے اکثریتی طبقہ کو ڈرانے کے لئے مسلم تنظیموں اور سیاسی پارٹیوں کا استعمال شروع کیا۔ رام مندر اس مقصد میں سب سے زیادہ سودمند ثابت ہوا۔
اب نوبت یہ آگئی ہے کہ کوئی بھی سیاسی پارٹی چاہے مسلمان اس کی حمایت کریں یا نہ کریں مسلمانوں کا نام لینے میں اپنا نقصان سمجھ رہی ہیں۔ ایسا ایک دن میں نہیں ہوا بلکہ اس کے لئے برسراقتدار جماعت نے بڑا کام کیا ہے جو ملک کے مسلمانوں کو سیاسی اچھوت بنانے میں کامیاب ہو گئی ہے۔ اندرا گاندھی کے دور سے یہ کوششیں تیز ہو گئی تھیں کیونکہ آزادی کے وقت کی سوچ پیچھے ہونے لگی تھی۔ اس کے لئے مسلمان بہت حد تک ذمہ دار ہیں کیونکہ انہوں نے دور اندیشی سے کام نہ لے کر اپنی سیاسی طاقت کا بیجا مظاہر کرنا شروع کر دیا تھا۔ مسلمانوں نے شمالی ہندوستان میں اپنے مطالبات کے لئے وہ طریقے اپنانے شروع کئے جو برسراقتدار جماعت کے لئے اکثریتی طبقہ کو ڈرانے میں سب سے اہم ہتھیار ثابت ہونے لگا، یعنی وہ ان کے جال میں پھنس گئے۔
مسلم تنطیموں نے کیا کردار ادا کیا وہ جگ ظاہر ہے، جس کی وجہ سے آزادی کے وقت جو ہندوستانی سوچ بنی تھی اس کو نقصان ہونا شروع ہو گیا اور اب بات یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ چند ماہ پہلے تک مسلمان اپنی شہریت ثابت کرنے کے لئے یہاں سے وہاں کاغذات ڈھونڈتے اور بنواتے نظر آ رہے تھے۔ اس سوچ کو مزید نقصان پہنچانے کے لئے برسراقتدار جماعت کو ایک ایسی سیاسی پارٹی کی ضرورت ہے جس کا ’ہوا‘ اکثریتی طبقہ کے سامنے پیش کیا جا سکے۔ برسراقتدار جماعت کے لیے یہ کام اسدالدین اویسی کی جماعت مجلس اتحاد المسلیمن بخوبی انجام دے رہی ہے۔ اویسی صاحب مسلمانوں کو ان کے حقوق دینے کی بات کر رہے ہیں لیکن جو طریقہ انہوں نے اپنایا ہے اس سے ملک کے مسلمانوں کی مزید پستی یقینی ہے۔
ایک بات سب کو سمجھ لینی چاہئے کہ ملک میں اکثریتی طبقہ ہو یا اقلیتی طبقہ اگر وہ اپنے اپنے حقوق کی بات کرنے لگیں گے تو ہو سکتا ہے کہ اس کا فائدہ ملک کے اکثریتی طبقہ کو ہو جائے، لیکن ملک کا بہت نقصان ہو جائے گا۔ ملک کی ترقی کے لئے آزادی کے وقت کی ہندوستانی سوچ کو دوبارہ زندہ کرنا ہوگا۔ اگر ہم نے ایسا نہیں کیا تو پھر پاکستانی شاعرہ فہمیدہ ریاض نے جو لکھا ہے وہ سچ ہو جائے گا کہ ’
تم بالکل ہم جیسے نکلے
اب تک کہاں چھپے تھے بھائی
وہ مورکھتا وہ گھامڑ پن
جس میں ہم نے صدی گنوائی
آخر پہنچی دوار توہارے
ارے بدھائی بہت بدھائی
پریت دھرم کا ناچ رہا ہے
قائم ہندو راج کرو گے
سارے الٹے کاج کرو گے
اپنا چمن تاراج کرو گے
تم بھی بیٹھے کرو گے سوچا
پوری ہے ویسی تیاری
کون ہے ہندو کون نہیں ہے
تم بھی کرو گے فتویٰ جاری
ہوگا کٹھن یہاں بھی جینا
دانتوں آ جائے گا پسینا
جیسی تیسی کٹا کرے گی
یہاں بھی سب کی سانس گھٹے گی
بھاڑ میں جائے شکشا وکشا
اب جاہل پن کے گن گانا
آگے گڑھا ہے یہ مت دیکھو
واپس لاؤ گیا زمانہ
مشق کرو تم آ جائے گا
الٹے پاؤں چلتے جانا
دھیان نہ دوجا من میں آئے
بس پیچھے ہی نظر جمانا
ایک جاپ سا کرتے جاؤ
بارم بار یہی دہراؤ
کیسا ویر مہان تھا بھارت
کتنا عالی شان تھا بھارت
پھر تم لوگ پہنچ جاؤ گے
بس پرلوک پہنچ جاؤ گے
ہم تو ہیں پہلے سے وہاں پر
تم بھی سمے نکالتے رہنا
اب جس نرک میں جاؤ وہاں سے
چٹھی وٹھی ڈالتے رہنا
روزنامہ قومی آواز، دہلی