آمنہ اختر۔ سویڈن
جنوری 2022 کو سویڈن میں فادیمے کی یاد میں دن منایا گیا ۔ سویڈن کی انسانی حقوق اور عورتوں کے حقوق کی علمبردار تنظیمیں یہ دن اس کی وفات کے بعد ہر سال 20 جنوری کومناتی ہیں ۔تاکہ آنے والی نئی نسل جن میں نوجوان اور والدین بھی شامل ہیں ان کو لڑکیوں کے حقوق کے متعلق آگاہی دی جائے ۔
فادیمے کا قاتل کوئی اور نہیں اسکا سگا باپ تھا ۔جو سوچتا تھا کہ اسکی بیٹی کا رویہ ان کی عزت کو داغدار کر رہا ہے ۔اسی باپ نے اپنی بیٹی کو سویڈن میں قتل کر دیا ۔ فادیمے کا قتل سویڈش سوسائٹی کو یہ واضح کرتا ہے کہ عزت کے نام پر قتل کا کیا مطلب ہے ۔
فادیمے شاہین دال 2 اپریل سن 1975 میں ترکی کے کردستان میں پیدا ہوئی۔اس کی پرورش پانچ بہنوں اور ایک بھائی کے ساتھ ہوئی ۔جب وہ سات سال کی ہوئی تو اس کے والدین نے ترکی سے سویڈن کے شہر اپسالا کے قریب ایک چھوٹے سے قصبے میں رہائش اختیار کر لی ۔
اس کے والدین چاہتے تھے کہ وہ بھی اپنی دوسری بڑی بہنوں کی طرح ترکی میں موجود اس کے کسی کزن سے شادی کرے ۔لیکن فادیمے کی سوچ اس کے اپنے والدین کی سوچ کے برعکس تھی ۔ کیونکہ وہ سات سال کی عمر سے لیکر جوان تو سویڈن ماحول میں ہوئی تھی ۔اس لئے اس انسانی معاشرے نے اس کی سوچ پر وہ پہرے نہیں بٹھائے تھے جو ترکی میں پلی بڑھی لڑکی یا خاتون پر ہوتے ہیں ۔
فادیمے نے جب اپنا کالج کا امتحان پاس کیا تو اس کو ایک سویڈش لڑکے سے پیار ہو گیا ۔ان کا پیار پھلا پھولا اور انہوں نے ایک دوسرے کے ساتھ اکٹھے رہنے کا فیصلہ کیا ۔مگر لڑکا چونکہ خالص سویڈن خاندان سے تھا ۔اس لئے فادیمے کا انتخاب اس کے والدین کی عزت کو داغ لگائے گا ۔اس لئے انہوں نے فیصلہ کیا کہ وہ کسی کو نہیں بتائیں گے ۔ مگر ایسی باتیں کہاں چھپتی ہیں ۔ایک دن فادیمے کے باپ نے اپنی بیٹی کو اس کے لڑکے کے ساتھ دیکھ لیا ۔ فادیمے کا باپ اسکا بھائی اور خاندان کے قریبی لوگوں نے فادیمے کو بدچلن/فاحشہ کا خطاب دے دیا۔
خاندان والوں نے فادیمے کو قتل کی دھمکی دی ۔مگر فادیمے ایک مضبوط لڑکی تھی وہ اپنے خاندان کے خلاف اپنے حق کے لئے کھڑی ہو گئی ۔اس نے پولیس کے پاس ان کی رپورٹ کروائی اور سویڈش قانون کی رو سے اس کے باپ اور بھائی پر ناجائز دھمکی اور حفاظت کے قانون کے تحت چندہ ادا کرنے کا کیس درج ہوا ۔
فادیمے اپسالا شہر سے پڑھائی کے لئے کسی اور علاقے میں جا بسی ۔مگر خاندان سے ملنی والی دھمکیاں زیادہ خوف ناک اور مسلسل اور زور پکڑنے لگیں ۔فادیمے کے بھائی کو اس بات کی تربیت دی گئی کہ وہ اپنے گھر کی تما م لڑکیوں پر نظر رکھے کہ وہ خاندان کےبنائے اصولوں سے باہر نہ نکلیں ۔(جیسے وہ بھیڑ بکریاں ہوں ) فادیمے کے بھائی پر فادیمے کے قتل کی ذمےداری بھی عائد ہوئی ۔۔
سوڈیش پولیس نے اس کیس کی نوعیت کو کوئی اہم نہیں جانا ۔ فادیمے نے فیصلہ کیا کہ وہ میڈیا میں جائے تاکہ کوئی تو اسکی صورت حال سمجھ سکے ۔فادیمے کوپولیس نے اپسالہ شہر جانے کی ممانعت کی گئی ۔لیکن اس کی اپنی ماں اور بہنوں سے چوری چھپے ملاقات تھی ۔ایسی ہی ایک ملاقات میں وہ اپنی بہنوں سے کسی بازار میں ملی ۔ اسی وقت اس پر اس کے بھائی نے قاتلانہ حملہ کیا۔مگر وہ وہاں سے بچ نکلی۔چونکہ وہ بیچ لوگوں کے حملہ ہوا تھا اس لئے عینی گواہ اور شواہد کے بعد فادیمے کے بھائی کو پانچ ماہ کی جیل ہوئی ۔فادیمے کو اس واقعے کے بعد بہت زیادہ صدمہ تھا ۔اس حملے کا نہیں بلکے اسی دن اس کے دوست کا کار حادثہ میں انتقال ہو گیا۔
فادیمے نے 2001 میں سویڈش نیشنل اسمبلی میں عورتوں کے حقوق اور ان پر تشدد کے سیمینار میں خطاب بھی کیا۔اس نے وہاں بتایا کہ اس نے چودہ پندرہ سال میں اس کی شادی کزن کے ساتھ کرنے سے انکار کیا تھا اور اس کے بعد اپنی مرضی سے ایک سویڈش لڑکے کے ساتھ زندگی گزارنے کے فیصلے پر اس کے والدین اور بھائی کیسے اس کو جان سے مارنے کی کوشش کر رہے ہیں ۔
بھائی اور باپ کی دھمکیوں اور ایک قاتلانہ حملے کے باوجود فادیمے ، اپنی ماں اور بہنوں سے ملنے کے لیے والدین کے شہر اپسالہ جانے کے لیے ٹرین پر سوار ہوئی۔اس کے خیال میں اس کی اپنی ماں اور بہنوں کے ساتھ یہ ایک الوداعی ملاقات تھی ۔کیونکہ وہ اپنی تعلیم کے سلسلے میں کینیا منتقل ہو رہی تھی ۔دوپہر کے قریب وہ اپنی بہن کے فلیٹ میں پہنچی ۔جہاں پر اسکی ماں بھی آ پہنچی ۔وہ چھوٹی بہن کے انتظار میں تھیں کہ دروازے پر بیل بجی ۔ان کے خیال میں ان کی چھوٹی بہن ہو گی ۔مگر انہوں نے جب دروازے پر لگے چھوٹے سے محدب شیشے سے دیکھا تو وہ انکا باپ تھا ۔انہوں نے دروازہ نہیں کھولا ۔آدھے گھنٹے کے بعد جب انہیں لگا کہ اب خطرہ نہیں تو فادیمے بہن کے گھر سے نکلی تو تاک میں بیٹھے اس کے باپ نے اسے سر کے بالوں سے پکڑ کر اس کی جسم میں گولیاں داغ دیں۔
قتل کے چند گھنٹوں کے اندر ہی پولیس نے اس کے باپ کو پکڑ لیا ۔اور اس نے اپنی گرفتاری کے بعد پہلی پیشی میں اپنی بیٹی کے قتل کا عدالت کے سامنے اعتراف کر لیا۔ قتل کی وجہ اس نے خاندان کی عزت کو داغدار کیا ہے اس بات کا جواز دیا ۔ فادیمے کے باپ کا یہ بیان ہمیں پوری دنیا کو بتاتا ہے عزت کے نام پر جینے والے معاشرے عورتوں کے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں ۔فادیمے کے باپ کے مطابق اسکی بیٹی اب اس اور اسکے خاندان والوں کے لئے ایک مسئلہ تھی اس لئے قتل کی گئی ۔ فادیمے کے باپ کو 3 اپریل 2002 کو سویڈش عدالت نے عمر قید کی سزا سنائی ۔
فادیمے کے باپ نے اپنے کیس کے خلاف اپیل کی جس میں وہ اپنے قتل کو جائز قرار دینے اور خاندان کی عزت کو پامال کرنے کے بہت سے بہانے گھڑتا رہا ۔مگر اس بار عدالت نے اس کی کوئی بات نہیں مانی حالانکہ فادیمے کی ماں اپنے خاوند کو بچانے کے لئے عدالت میں گواہ کے طور پر لائی گئی ۔مگر سویڈش عدالت نے اپنا فیصلہ برقرار رکھتے ہوئے تاحیات جیل کی سزا برقرار رکھی۔ اعلیٰ عدالتوں میں اپیل کے نتیجے میں کچھ سزا کم بھی ہوئی ۔
فادیمے ،آج اپسالہ شہر میں اپنے دوست کی قبر کے قریب ہی ابدی نیند سوئی ہوئی ہے مگر اس کی آواز آج بھی زندہ ہے ۔فادیمے کے ساتھ ہوئے حادثے نے سویڈش پولیس اور عدالت کو ایک نیا سوال دیا ہے اور بتایا ہے کہ مختلف ثقافتیں کس طرح اپنے پرانے خیالات کو اس سویڈش جدید معاشرے میں زندہ رکھے ہوئے ہیں ۔اور سویڈش قانون کو کتنا اور وسیع کر کے اس میں سویڈن کے اندر موجود عورتوں کی حفاظت کرنی ہے ۔انہیں ان کے اپنے ہی والدین اور بھائیوں سے کیسے تحفظ دلانا ہے ۔
اب سکولوں میں طالبعلموں کو سیمینار کے ذریعے عزت کے قتل کے متعلق بتایا اور پڑھایا جاتا ہے ۔تاکہ ہم ایک انسانی بنیادوں پر نئی نسل کے بچوں اور والدین کو تیار کر سکیں ۔یہی ضرورت ہمیں پاکستان میں بھی کرنے کی ہے ۔
بہادر فادیمے کے نام سے اپ سب کو انسانیت کا پیغام ملے
♥