ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے کہا ہے کہ اسرائیلی صدر آئزک ہیروزگ کے اوّلین دورہ ترکی سے دونوں ممالک کے مابین تعلقات کا ایک نیا باب شروع ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ ان کی حکومت تل ابیب کے ساتھ تعاون کے لیے تیار ہے۔
ترکی کی کوشش کہ وہ خلیج اور مشرق وسطیٰ کے ممالک کے ساتھ تعاون بڑھائے۔ اسی تناظر میں ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے بالخصوص متحدہ عرب امارت اور اسرائیل کے ساتھ قریبی اور دوستانہ تعلقات کو انتہائی اہم قرار دیا ہے۔
رجب طیب ایردوآن نے ملکی نشریاتی ادارے این ٹی وی سے گفتگو میں کہا ہے کہ اسرائیلی صدر آئزک ہیروزگ آئندہ ماہ ترکی کا دورہ کریں گے، جو دونوں ممالک کے مابین تعلقات کے ایک نئے باب کا آغاز ہو گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ انقرہ حکومت اسرائیل کے ساتھ مختلف شعبہ جات بالخصوص قدرتی گیس کی تجارت میں تعاون کے لیے مکمل طور پر تیار ہے۔
ترکی نے مارچ سن 1949میں اسرائیل کو بطور ریاست تسلیم کیا تھا اور یوں وہ پہلا اسلامی ملک بن گیا تھا، جس نے اس یہودی ریاست کی خودمختاری اور سالمیت کے دفاع کی بات کی تھی۔ ان دونوں ممالک کے باہمی تعلقات کی تاریخ پرانی ہے۔ تاہم ایردوآن کے اقتدار میں آنے کے بعد ان دونوں ممالک کے سفارتی تعلقات میں نشیب و فراز دیکھا گیا ہے۔
ترکی کے مؤقف میں تبدیلی کیوں؟
ایردوآن فلسطین کے بارے میں اسرائیلی پالیسی کے سخت ناقد ہیں۔ اسی حوالے سے ترکی اور اسرائیل کے مابین تعلقات میں کشیدگی بھی دیکھی گئی۔ تاہم حال ہی میں ترکی کے مؤقف میں کچھ تبدیلی آئی ہے۔ ترک صدر کا کہنا ہے کہ کچھ معاملات پر اختلافات کے باوجود بھی باہمی سفارتی و تجارتی روابط بہتر بنائے جا سکتے ہیں۔
ناقدین کے مطابق ترک صدر اسرائیل کے ساتھ تعلقات میں بہتری چاہتے ہیں، جس کا ایک مقصد اسرائیلی قدرتی گیس کا حصول بھی ہے۔ مشرقی بحیرہ روم سے یورپ آنے والی اسرائیلی قدرتی گیس کی تجارت کے حوالے سے انقرہ کا یونان اور قبرص سے سخت مقابلہ ہے، اس لیے اسرائیل نے اپنی خارجہ پالیسی میں لچک پیدا کی ہے۔
ترک صدر کے ان بیانات پر اسرائیلی دفتر خارجہ کی طرف سے فوری طور پر کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا ہے۔ تاہم یہ بات واضح ہے کہ اسرائیل بھی اپنی خارجہ پالیسی میں کچھ تبدیلی لاتے ہوئے مسلم ممالک سے تعلقات میں بہتری کا متقاضی نظر آ رہا ہے۔
متحدہ عرب امارات ایک اہم ملک
اسرائیلی صدر ہیرزوگ کا دورہ متحدہ عرب امارات کا منصوبہ اس بات کی تازہ ترین مثال ہے۔ وہ اتوار کے دن اس خلیجی ریاست جائیں گے۔ اسرائیلی صدر کا کسی بھی خلیجی ریاست کا یہ پہلا دورہ ہو گا۔ مبصرین اس پیشرفت کو علاقائی امن و ترقی کے لیے انتہائی اہم قرار دے رہے ہیں۔
ترک صدر ایردوآن نے بھی چودہ فرروی کو متحدہ عرب امارت کا دورہ کیا تھا۔ اس موقع پر انہوں نے صحافیوں سے گفتگو میں کہا تھا کہ یہ دورہ علاقائی سطح پر مکالمت میں بہتری کا باعث بنے گا۔
ترکی اور متحدہ عرب امارات کے مابین سفارتی تعلقات سن دو ہزار سترہ میں اس وقت انتہائی کشیدہ ہو گئے تھے، جب انقرہ حکومت نے قطر تنازعے پر سعودی اتحادی ممالک کے بجائے دوحہ حکومت کا ساتھ دیا تھا۔
ترک صدر کے بقول اب موقع ہے کہ انقرہ خلیجی ممالک کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لائے اور علاقائی استحکام کو یقینی بنانے کی کوشش کی جائے۔ اس وقت ترک کرنسی لیرا شدید مشکلات کا شکار ہے جبکہ ترکی میں افراط زر اور مہنگائی کی وجہ سے ملکی معیشت کو بھی دباؤ کا سامنا ہے۔
اس مخصوص وقت میں ایردوآن چاہتے ہیں کہ خلیجی ممالک سے تجارتی تعلقات میں بہتری لائی جائے تاکہ بزنس کے مواقع اور ‘کیش فلو‘ کو نئی روح ملے۔ اس حوالے سے ترکی نے اسی ماہ کے اوائل میں متحدہ عرب امارات کے ساتھ 4.74 بلین ڈالر مالیت کے برابر ‘کرنسی سواپ‘ کی ڈیل بھی کی تھی۔
dw.com/urdu