تحریر وتحقیق: پائندخان خروٹی
فلسفہ و منطق میں کاز اینڈ ایفیکٹ کے حوالے سے ماضی کے لگے بندھے اصولوں کی پیروی کرنا موجودہ ترقی یافتہ دنیا میں ممکن نہیں رہا۔ مثال کے طور پر کہا جاتا ہے کہ جب کسی جگہ دھواں اٹھتا نظر آئے تو وہیں پر آگ ضرور لگی ہوگی۔ لیکن آج کا مشاہدہ ہے کہ آگ اور دھواں لازم و ملزوم نہیں ہیں۔ جہاں آگ لگی ہو، وہاں دھواں کا نظر آنا ضروری نہیں ہے۔ اس کا مقصد ہر گز یہ نہیں کہ اسباب اور نتائج کی بنیادی تھیوری کو یکسر مسترد کر دیا جائے ۔تاہم اس حوالے سے قائم ہونے والے مفروضات وقتاً فوقتاً غلط ثابت ہوتے رہے ہیں۔
لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ ماضی کے بیانیے اور ضابطہ اخلاق کو من عن قبول کرنے کی بجائے پہلے اس پر فلسفیانہ شک کیا جائے اور پھر مکمل چھان بین، مشاہدہ اور تجربہ کے بعد اسے کلی یا جزوی طور پر قبول یا مسترد کیا جا سکتا ہے کیونکہ ” انسان دوسرے حیوانات کی طرح صرف ماحول کے مطابق اپنے آپ کو موزوں نہیں بناتے بلکہ وہ اسے بدلتے بھی ہیں اور اکثر فطری ماحول کے ناموافق اثر کو زیر کرتے ہیں۔1
علم و دانش کی دنیا میں جبر و قدر کا معاملہ بہت گنجلک اور پیچیدہ ہے۔ روایت پرست اور خاص کر مذہبی افراد جبر و اختیار کے معاملے میں گفتگو اور سوال و جواب سے گریز کرتے ہیں۔ چونکہ انسانی عقل اور منطق کے مطابق کوئی بھی بحث یا مکالمہ ٹھوس دلائل اور شواہد کا تقاضا کرتا ہے جبکہ عقائد اور وجدانی علم پر عمل پیرا افراد کیلئے ضروری دلائل اور عقل کی بنیاد پر جبر و اختیار جیسے مسائل کو طے کرنا ممکن نہیں۔
میٹافزکس کی عینک سے معاملات کو دیکھنے والے عقل اور سائنس کی کسوٹی کو اختیار کرنے کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ روایتی اور تصوراتی نقطہ نظر کے حامل افراد خاص طور پر مذہبی عناصر اس الجھن میں پڑنے سے کتراتے ہیں۔ ان کا عام طور پر موقف ہوتا ہے کہ حتمی سچائی عقلی اور معروضی شواہد کی پابند نہیں اور اسے بغیر دیکھے یا حساتی طور پر محسوس کیے بغیر سر جھکا کے تسلیم کر لیا جانا چاہیے۔ جبکہ اس کے برعکس “خود انسان ہی اپنی تاریخ کی عمارت تعمیر کرتے ہیں لیکن من مانے طریقہ سے نہیں ۔ وہ اس کی تعمیر خارجی حالات اور معاشرتی قوانین کے مطابق کرتے ہیں جو بلاشبہ موجود ہوتے ہیں لیکن اس کی حیثیت تقدیر کے لکھے کی نہیں ہوتی۔2
جبر و اختیار کے گنجلک معاملے کو نسبتاً آسان زبان میں سمجھنے کیلئے ضروری ہے کہ اسے دو حصوں میں تقسیم کیا جائے۔ پہلے حصے میں جبر کی کیفیت نیچر اور انسان کے درمیان تضاد کی شکل سامنے آتی ہے۔ دوسرا حصہ وہ جس میں جبر خود معاشرے کی سیاست اور معیشت پر قابض عناصر نے کمزور اکثریت پر مسلط کر رکھا ہے۔ جبر کی دونوں فطری اور سماجی اقسام کو الگ الگ سمجھنا اس لیے ضروری ہے کہ ہم اس کے بغیر ان کے خلاف انسانی جدوجہد اور نجات کی تحریک کو آگے نہیں بڑھا سکتے۔ اس ضمن میں جبر کی دونوں قسموں کا صحیح ادراک حاصل کرنا اولین شرط ہے۔ مفکر اعظم کارل مارکس نے سادہ الفاظ میں اس بات کی وضاحت کی ہے کہ “جبر و اختیار میں اتحاد پایا جاتا ہے۔ اختیار دراصل جبر ہی کے شعور کا دوسرا نام ہے۔ انسان جبر کی حدود میں رہ کر ہی اختیار سے بہرہ یاب ہو سکتا ہے۔ جبر و اختیار کے اس جدلیاتی ربط و تعلق کی وضاحت کر کے کارل مارکس نے ایک ایسے عقدہ کو سلجھا دیا جو قدیم زمانے سے اہل فکر کیلئے چیستاں بنا ہوا تھا۔3
انسان نے اپنی بقاء اور ارتقاء کیلئے فطرت کے وحشت ناک حملوں، خونی مناظر اور کٹھن حالات کامقابلہ کیا اور وقت گزرنے کے ساتھ زندہ رہنے کی صلاحیت میں اضافہ کرتا رہا۔ یہاں تک کہ وہ اپنے دفاع کی جنگ کے آغاز کرنے والے انسان نے تسخیرِ کائنات کا مرحلہ بھی عبور کرنا شروع کیا۔ یہ درست ہے کہ بہت سے معاملات میں آج بھی انسان خود کو بےبس اور ناتواں محسوس کرتا ہے لیکن یہ بھی ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ بہت سے دیگر مسئلوں میں انسان نے فطرت کو بےاثر کر دیا ہے اور دنیا کی تشکیل اپنی مرضی اور ضرورت کے مطابق کر رہا ہے۔
نسل انسانی کو سردی اور گرمی کی شدت سے محفوظ رکھنے کیلئے بنیادی ضروریات حاصل کرنے، خوراک کی قلت پر قابو پانے، امراض (خاص کر وبائی امراض جن سے ماضی میں نہ صرف لاکھوں افراد مر گئے تھے بلکہ ناقابل علاج سمجھتے تھے) کا علاج کی تلاش کرنے میں بنی نوع انسان نے ناقابل یقین حد تک کامیابی کے جھنڈے گاڑ دیے۔ یعنی جو کامیابیاں حاصل کیں اور کر رہے ہیں۔ وہ فطرت کے جبر سے نجات کی طویل جدوجہد میں اہم سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ جی ہاں وہی انسان جو ماضی میں حیوانی زندگی گزارنے پر مجبور تھا۔ اپنے تحفظ کیلئے خطرناک غاروں، جنگلوں اور پہاڑوں میں رہتا تھا۔ آج انسان نے تاریخ میں پہلی بار اپنی آواز سے تیز رفتار سفر کرنے کو ممکن بنا دیا۔
اپنے ڈرائنگ روم کی حد تک صحیح مگر موسم اصغر پیدا کرنے کی صلاحیت پیدا کی، سینکڑوں پودوں اور جانوروں کی نئی قسمیں پیدا کیں، قدرتی آفات کی پیش بینی اور ان پر قابو پانے کیلئے مسلسل نئی منازل طے کی جارہی ہیں، خوراک کی بےتحاشا پیداوار کے حوالے سے خوراک کی قلت پر قابو پا لیا۔ آج انسان ہوا میں پرندے کی طرح اڑتا ہے اور پانی میں مچھلی کی تیرتا ہے۔ اپنی زندگی کو ہر بدلتے لمحہ کے ساتھ آسان، آرام دہ اور تیزتر بنانے کیلئے شعوری طور پر سرگرم ہے۔ آج انسان اپنی محنت، ذہانت اور خاص طور سے سائنسی ایجادات کے نتیجے میں اپنی زندگی کو بہترین سہولتوں اور آسائشوں کو حاصل کرنے میں کامیاب ہے۔
اس طرح واضح ہوا کہ “اختیار شعور ہی کا لازمہ ہے۔ یہ کہنا کہ ہم صاحب اختیار ہیں۔ یہ بات کہنے کے مترادف ہے کہ ہمیں اپنے افعال کا شعور ہیں۔4
انسان نے ارتقاء و ترقی کے سفر میں اپنی ضروریات کو پورا کرنے کیلئے مختلف ادوار میں مختلف موڈ آف پروڈکشن کو اختیار کیا جس کو معاشرتی تاریخ کے مختلف مراحل سے بھی تعبیر کیا جاتا ہے۔ پیداواری عمل کے آغاز کے ساتھ ہی انسانوں میں زیادہ اور کم حاصل کرنے والوں کے درمیان تفریق پیدا ہوئی اور حقیر اقلیت معاشرے کی عظیم اکثریت کے تمام ذرائع پیداوار اور تعلقات پیداوار پر غالب رہے۔ کہا جاتا کہ انسانی معاشرے میں ہیو اور ہیو ناٹس کی لڑائی اس وقت شروع ہوئی جب پہلے انسان نے زمین کے ایک ٹکڑے پر لکیر کھینچ کر دعویٰ کیا کہ یہ میرا ہے۔ ملکیتی نظام کے ابتدائی دور کو زرعی معاشرہ کہا گیا جس پر قابض قوتیں منظم ہونے کے بعد جاگیر دار طبقہ سے منسوب ہوئی جنہوں نے بعدازاں باقاعدہ جاگیر دارانہ نظام کو منظم کیا۔
اس سے قبل ان ہی بااثر افراد نے غیر منظم اور غلام دارانہ نظام قائم رکھا تھا۔ یہ مذکورہ جاگیردارانہ نظام طویل عرصے تک چلتا رہا جس کی اساس زراعت تھی۔ انقلاب فرانس میں پہلی بار اس نظام کو منظم طور پر چیلنج کیا گیا۔ یہاں سے سرمایہ دارانہ نظام کا آغاز ہوا اور سیاسی طور پر بادشاہت کی جگہ جمہوریت نے لے لی۔ آج بھی دنیا میں مجموعی طور پر سرمایہ دارانہ نظام ہی غالب ہے۔ تاہم 1917 میں سوویت یونین کے قیام سے عالمی سرمایہ داری کو چیلنج کا سامنا بھی ہے۔ آج جہاں عالمی سرمایہ دارانہ نظام ڈھانچہ جاتی بحران کا شکار ہے وہی سوشلسٹ موڈ آف پروڈکشن اس کے متبادل کے طور پر سامنے آرہا ہے۔ اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ ” ہر نسل اپنا زمانہ خود تعمیر کرنا چاہتی ہے، اپنا ماحول خود تشکیل کرنا چاہتی ہے۔ اسی جذبے میں ترقی کا راز پنہاں ہے اور رجعت پرست طاقتیں اسی جذبے کو ختم کرنا چاہتی ہیں تاکہ تبدیلی و ترقی سے معاشروں کو محروم کر دیں۔5
اس ضروری وضاحت کے بعد جبر و اختیار کی مبہم تصور ایک واضح تصویر کی شکل میں سامنے آگئی ہے۔ ملکیت داری نظام تمام اقدار ملکیت اور اس کے نظام کو تحفظ دینے کیلئے وضع کی جاتی ہے۔ اس تسلسل میں ان عناصر کو دیکھا جا سکتا ہے جو تمام حالات واقعات کو فطرت، تقدیر یا اللہ تعالیٰ کی مرضی قرار دیکر انسان کو اپنے حالات بدلنے اور انسان کے ہاتھوں انسان کا استحصال سے نجات روکنے کیلئے کوشاں ہیں۔ اپنے اقتدار اور منافع کو برقرار رکھنے کیلئے منبر و محراب، میڈیا اور نصاب وغیرہ کو بھی بطور ہتھیار استعمال کیا جاتا ہے۔ غلام داری نظام سے جاگیردارانہ سماج اور اس کے بعد جدید سرمایہ داری کے حصول میں کامیاب رہا ہے اور اب ان تمام نظاموں کے بعد ملکیت داری نظام کے تمام نشانات مٹانے اور انسان کی حقیقی نجات کی جدوجہد جاری ہے جسے مزید منظم کرنے، طاقتور بنانے اور دنیا بھر میں پھیلانے کی ضرورت ہے۔ اس حوالے سے انسان کے ہاتھوں انسان کے استحصال سے پاک معاشرہ کے قیام کیلئے سوشلسٹ ویژن کے مطابق جدوجہد کو تیز کرنے، مقبول عام بنانے اور عالمی سطح پر سرمایہ کے نظام سے چھٹکارا حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔ “جب تک نیچر کا کوئی قانون انسان کے علم میں نہ ہو وہ اس کے سامنے مجبور ہوتا ہے لیکن اس قانون کا شعور ہوتے ہی قانون انسان کی گرفت میں آ جاتا ہے اور اس سے حسب منشاء کام لینے کے قابل ہو جاتا ہے۔6
جبر و اختیار کی بحث میں ایک مسئلہ یہ بھی اٹھایا جاتا ہے کہ فطرت اور سماج کے علاوہ انسان حیاتیاتی جبر کا بھی شکار ہے۔ اور اس کی جینز میں جو کچھ موجود ہے اس سے وہ آزاد نہیں ہو سکتا تاہم اکیسویں صدی نے آرٹیفیشل انٹلیجنس کے ذریعے اس سوال کا بھی دو ٹوک الفاظ میں جواب دے رہا ہے۔ اگر انسانی ڈی این اے پر انسان نے کنٹرول حاصل کر دیا جس کے شواہد موجود ہیں تو بائیولوجیکل جبر سے نجات حاصل کرنے میں بھی کامیاب ہو سکتا ہے۔ جس طرح انسانی تاریخ تسخیرِ قمر کو نسل انسانی کی فتح مندی قرار دیا گیا۔ آج انسان بائیو لوجیکل اور ٹیکنالوجیکل ترقی مربوط کر کے نہ صرف نئی دنیا بلکہ نیا انسان تخلیق کرنے میں کامیاب ہو سکتا ہے۔ گویا بائیوٹیک اور انفوٹیک کے امتزاج سے انسانی تاریخ کی اب تک سب سے بڑی فتح مندی ہوگی۔
حوالہ جات:۔
۔1۔ ولادسیلاف کیلے، ماتوے کوائزون، تاریخی مادیت، سٹی بک پوائنٹ کراچی 2004، صفحہ 72۔
۔ 2۔ولادسیلاف کیلے، ماتوے کوائزون، تاریخی مادیت، سٹی بک پوائنٹ کراچی 2004، صفحہ 36۔
۔ 3۔سید علی عباس جلالپوری، تاريخ کا نیا موڑ، تخلیقات لاہور 2013 صفحہ 85۔
۔4۔ ول ڈیورانٹ، داستان فلسفہ، فیکش ہاوس لاہور 2019، صفحہ 581۔
۔5۔ ڈاکٹر مبارک علی، تاريخ اور فلسفہ تاریخ، تاريخ پبلی کیشنز
۔6۔ سید علی عباس جلالپوری، تاريخ کا نیا موڑ، تخلیقات لاہور 2013 صفحہ 82۔89