ظفر آغا
اویسی صاحب کی قیادت اور مجلس جیسا پلیٹ فارم حیدرآباد کے مسلمانوں کے مسائل حل نہیں کرسکا، یوپی میں بھی ان کی جذباتی سیاست مسلمانوں کے لئے نہیں، ہندو رد عمل کی شکل میں بی جے پی کے لئے سودمند ثابت ہوگی۔
آل انڈیا مجلس اتحادالمسلمین کے صدر جناب اسدالدین اویسی صاحب ان دنوں سرخیوں میں ہیں۔ اس کا سبب بھی ہے اور وہ یہ کہ اتر پردیش کے میرٹھ ضلع میں ایک الیکشن ریلی کو خطاب کرنے کے بعد واپسی کے دوران ان کے قافلے پر گولی چلائی گئی۔ ایک ہندو نوجوان اس سلسلے میں فوراً گرفتار بھی کر لیا گیا۔ وزیر داخلہ امت شاہ نے اویسی صاحب کو فوراً ملک کی سب سے کارگر زیڈ پلس سیکورٹی کی پیشکش بھی کر دی جس کو اویسی نے لینے سے انکار کر دیا۔ اور بس اس کے بعد سے اویسی صاحب خبروں میں چھا گئے۔
لیکن اس کو حسن اتفاق کہیے یا کچھ اور، اویسی صاحب پر میڈیا کی نگاہ کرم عموماً الیکشن یا کسی ایسے وقت ہوتی ہے جب بی جے پی کو کسی مسلم ایشو یا شخصیت کو فوکس کرنے کی ضرورت ہے۔ اکثر اویسی صاحب کے مخالفین ان پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ دراصل اویسی صاحب کی پارٹی بی جے پی کی ’بی ٹیم‘ ہے۔ اور گودی (منشی) میڈیا اسی وقت اویسی صاحب کو فوکس کرتا ہے جب بی جے پی کو ان کا استعمال ہندوؤں میں مسلمانوں کے خلاف جذبات بھڑکانے کے لیے کرنا ہوتا ہے۔ یا پھر کسی الیکشن میں میڈیا ان کی مسلم مفاد کی تقاریر کو فوکس کر مسلم ووٹ بینک کو بانٹ دیتا ہے۔ اس کا سیدھا فائدہ بی جے پی کو ہوتا ہے جیسا کہ پچھلے سال بہار اسمبلی چناؤ میں ہوا۔
ان دنوں اتر پردیش میں اسمبلی چناؤ چل رہے ہیں۔ وہاں مسلم ووٹ بینک بہت اہم ہے۔ اگر مسلمان وہاں پر اویسی صاحب کی پارٹی اور دیگر دوسری پارٹیوں کے درمیان بٹ گیا تو ظاہر ہے کہ متحد ہندو ووٹ بی جے پی کے حق میں چلا جائے گا اور بس بی جے پی کا کام بن جائے گا۔ لیکن یہ تب ہی ممکن ہے جب اویسی صاحب خبروں میں چھائے رہیں۔ اس کے لیے میڈیا کو کوئی خبر چاہیے اور وہ خبر ایک ہندو نوجوان نے اویسی صاحب کی کار پر گولی چلا کر بنوا دی اور بس اویسی صاحب اور بی جے پی دونوں کا کام بن گیا۔ پتہ نہیں حقیقت کیا ہے۔ کون کس کی مدد کر رہا یہ سمجھنا مشکل ہے۔ لیکن یہ طے لگتا ہے کہ یوپی چناؤ کے درمیان اویسی صاحب وقت بوقت خبروں میں رہیں گے۔
خیر، یہ تو رہا ان دنوں اویسی صاحب کا حالیہ خبروں میں فوکس میں رہنے کا مسئلہ۔ مگر مسلم ووٹر کے لیے جو بات قابل غور و فکر ہے وہ یہ ہے کہ اویسی صاحب بذات خود اپنے کو مسلم قائد پیش کرتے ہیں اور اپنی پارٹی کو مسلم مفاد کی پارٹی بتاتے ہیں۔ اس سلسلے میں ان کی دلیل یہ ہے کہ اس ملک میں ہر قوم و تقریباً ہر سماجی گروہ کے مفاد کا کوئی لیڈر اور پارٹی ہے۔ لہٰذا مسلمانوں کا بھی کوئی مسلم قائد اور پارٹی ہونی چاہیے۔ ان کے بقول ایسا قائد ہی بغیر خوف و خطر مسلمانوں کے مسائل پارلیمنٹ کے اندر و باہر اٹھا سکتا ہے۔
اور اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا ہے کہ اویسی صاحب بذات خود مسلم ایشوز ہر پلیٹ فارم پر بغیر خوف و خطر اٹھاتے بھی ہیں۔ اویسی صاحب کی اس دلیل میں کافی اپیل بھی ہے۔ یہ سہی ہے کہ ہندوؤں کے مفاد کی بات کرنے والی اس ملک میں بی جے پی ہے۔ پسماندہ ذاتوں کے مفاد میں لڑنے والی اس ملک میں تقریباً ہر صوبہ مین الگ الگ پارٹیاں و قائد ہیں۔ مثلاً بہار میں لالو اور ان کے بیٹے، اتر پردیش میں ملائم اور اکھلیش و تمل ناڈو میں اسٹالن۔ دلتوں کے حق میں مایاوتی اور ان کی جماعت بی ایس پی ہے۔ مگر مسلمانوں کے حق میں بولنے والا کوئی نہیں۔ لہٰذا مسلمانوں کا بھی ایک آل انڈیا پلیٹ فارم ہو اور اس کا ایک قائد ہو جو ظاہر ہے کہ اویسی صاحب ہونے چاہئیں۔
جیسا ابھی عرض کیا کہ اس دلیل میں بے حد کشش ہے اور عموماً مسلم نوجوان طبقہ اویسی صاحب کی اس دلیل پر جذبات میں بہہ کر ان کے ساتھ چلا بھی جاتا ہے۔ لیکن مسلم پلیٹ فارم اور مسلم قائد کی دلیل اویسی صاحب کی ذاتی پیش کردہ یا نئی دلیل نہیں ہے۔ یہ سیاسی دلیل اس ملک کا ایک مسلم گروہ آزادی کے قبل سے پیش کرتا چلا آ رہا ہے اور اسی دلیل پر منحصر آزادی سے قبل اور آزادی کے بعد بھی مختلف مسلم تنظیمیں بنتی رہی ہیں۔
اس دلیل پر منحصر سب سے جامع تجربہ 20ویں صدی کی اولین دہائی میں مسلم لیگ کے قیام سے ہوا تھا جس کے سب سے بڑے قائد محمد علی جناح تھے۔ مسلم لیگ کا قیام اسی بنیاد پر ہوا تھا کہ مسلم مفاد میں کام کرے گی۔ اور آخر جناح صاحب کو جب یہ محسوس ہوا کہ متحدہ ہندوستان میں مسلم مفاد محفوظ نہیں رہ سکتے ہیں تو انھوں نے ملک کے بٹوارے کی پیشکش کر دی اور اس طرح پاکستان وجود میں آیا۔ اور سنہ 1971 میں بنگلہ دیش کے وجود کے بعد برصغیر ہند کا مسلمان تین حصوں، یعنی ہندوستان، پاکستان اور بنگلہ دیش میں بنٹ گیا۔ جناح جیسے قائد اور خالص مسلم مفاد کی مسلم لیگ جیسی پارٹی کے نتائج واقعی مسلم مفاد کا تحفظ نہیں کر سکے۔
خود تاریخ اور ہندوستانی مسلمان کا پچھلے 70 برسوں کا تجربہ شاہد ہے۔ آج ہندوستانی مسلمان دوسرے درجے کا شہری ہے اور نہ تو مسلم لیگ کہیں نظر آتی ہے، نہ ہی جناح جیسا کوئی قائد اس ملک میں کہیں موجود ہے۔ لیگ برصغیر اور خصوصاً ہندوستانی مسلمان کو تین حصوں میں بانٹ کر چلی گئی اور آج اس ملک کا مسلمان بے یار و مددگار ہے۔ آپ نے غور فرمایا کہ خالص مسلم پلیٹ فارم اور خالص مسلم قائد کا پہلا تجربہ مسلم مفاد میں نہیں بلکہ مسلمانوں کے نقصان میں رہا۔
آزادی کے بعد بھی اکثر و بیشتر مسلم مفاد کی بات مسلم پلیٹ فارم سے اٹھتی رہی اور مختلف صوبوں میں اس دلیل پر مبنی تجربے بھی ہوئے۔ مثلاً سنہ 1960 کی دہائی میں اتر پردیش میں ڈاکٹر فریدی نے مسلم مجلس کا قیام کیا اور مسلم و پسماندہ ذاتوں کے اتحاد کی بات اٹھائی۔ مسلم مجلس نے آخر میں چرن سنگھ کے ساتھ مل کر یوپی میں حکومت بھی بنائی۔ آخر میں اندرا گاندھی کے خلاف مسلم مجلس جنتا پارٹی کے ساتھ 1977 میں مل کر حکومت میں مرکز و یوپی دونوں جگہ اقتدار میں آئی۔
حد تو یہ ہے کہ جیسے جناح صاحب نے سنہ 1947 سے قبل موجود پاکستان کے صوبہ سرحد میں ہندو سبھا کے ساتھ مل کر حکومت بنائی تھی، ویسے ہی ڈاکٹر فریدی کی مسلم مجلس نے بھی اس وقت جن سنگھ کے ساتھ مل کر جنتا پارٹی حکومت بنائی۔ جنتا پارٹی حکومت سے مسلم مفاد کس حد تک حل ہوئے اس کا اندازہ سب کو ہے۔ یعنی خالص مسلم پلیٹ فارم اور مسلم قائد ڈاکٹر فریدی کا مسلم مجلس تجربہ بھی ناکام رہا۔
اس کے بعد سنہ 1986 میں بابری مسجد کا تالا کھلنے کے بعد خالص مسلم پارٹی تو نہیں لیکن بابری مسجد کے تحفظ کے لیے خالص مسلم پلیٹ فارم یعنی بابری مسجد ایکشن کمیٹی قائم ہوا جس کو مولانا بخاری اور شہاب الدین مرحوم جیسوں کی سرپرستی حاصل ہوئی۔ پھر تین طلاق کے ایشو کو لے کر علما کی قیادت میں مسلم پرسنل لاء بورڈ سرگرم ہوا۔ یہ دونوں پلیٹ فارم بھی خالص مسلم پلیٹ فارم تھے جو مسلم قائدین کی سرپرستی میں کارگر تھے۔ آج نہ تو بابری مسجد بچی ہے اور نہ ہی اب مسلمان تین طلاق کی بات اٹھانے کی ہمت کر رہا ہے۔ ہاں، بابری مسجد کی جگہ پر شاندار رام مندر بن کر تیار ہو رہا ہے۔ خالص مسلم پلیٹ فارم کے جواب میں خالص ہندو پلیٹ فارم آر ایس ایس اور بی جے پی اب اس ملک کی سب سے بڑی سیاسی و سماجی پاور ہیں جس کا خمیازہ سب سے زیادہ مسلمان بھگت رہا ہے۔
خالص مسلم پلیٹ فارم اور مسلم قائد کی دلیل کے تحت خود حیدر آباد میں آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین پارٹی اسدالدین اویسی صاحب کی قیادت میں ان دنوں کارگر ہے۔ یہ پارٹی وہاں حکومت میں بھی شامل ہے۔ لیکن اس سے حیدر آباد کے مسلمانوں کو کس قدر فائدہ حاصل ہے یہ سمجھنا مشکل ہے۔ ہاں، اویسی خاندان کی سرپرستی میں جو اوقاف چل رہے ہیں وہ آئے دن بڑے بڑے میڈیکل کالج، انجینئرنگ کالج اور دوسرے تعلیمی ادارے چلا رہے ہیں اور پھل پھول رہے ہیں۔ حیدر آباد کا غریب مسلمان ان اداروں کی مہنگی فیس دینے سے بھی معذور ہے۔ ان کا فائدہ ان کو ہی مل رہا ہے جن کے والدین عرب سے کما کر لا رہے ہیں۔
یعنی خود اویسی صاحب کی خالص مسلم قیادت اور آل انڈیا مجلس اتحادالمسلمین جیسا پلیٹ فارم بھی مسلمانوں کے مسائل حل کرنے میں ناکام ہے۔ ایسے میں اتر پردیش چناؤ میں اویسی صاحب کی جذباتی مسلم پلیٹ فارم کی سیاست مسلمان کے حق میں تو نہیں، ہاں ہندو رد عمل کی شکل میں بی جے پی کے حق میں ہی ثابت ہوگی۔ اس لیے ان چناؤ میں مسلمانوں کو جوش نہیں ہوش سے کام لینا چاہیے۔
بشکریہ: قومی آواز، نئی دہلی