مہرجان
ریاستی دانشور جس طرح قومی بالادستی کے تناظر میں تاریخ سے منہ موڑ لیتا ہے وہ اپنی تئیں حاکم و محکوم کے تضاد کو محدودے چند اختلافات کا نام نہ دےکر بھی قابض ریاست کی سالمیت و اجارہ داری (سپر اسٹرکچر /پاکستانیت) کو بچانے کے لیے ہر ممکن کوشش کرتا ہے۔اب تاریخ میں بلوچ قومی مزاحمت کار نے جس طرح ریاستی اجارہ داری کے مقابلے میں اپنی قومیت (سپر اسٹرکچر/ بلوچیت) کے دفاع کے لیے ہتھیار اٹھایا۔اسی طرح بلوچ قومی دانشوروں نے بھی تاریخی عمل کے ساتھ کندھا ملا کر تاریخ ،ادب و لسانیات میں پاکستانیت کے سامنے خود کوسیسہ پلائی ہوئی دیوار بنایا۔
آغا کریم کے عملی کردار کے علاوہ انکی شاعری (غیر مطبوعہ ) یا گل خان نصیر کی شاعری و تاریخ کا موضوع ہو۔اسی طرح محمد حسین عنقاء کی لکھت ہو یا سید ہاشمی کا لسانیت کےحوالے سے موضوع ہو یا ہیبت خان کا افسانہ “مسافر” ہو۔غرض ہر محاذ پہ بلوچ سپراسٹرکچر(قومیت) کی نمائندگی کرتا نظر آتا ہے۔ممکن ہے کہ ان میں موجود دور کے اکیڈمک دائرہ کار میں فنی خامیوں کی نشاندہی کی جاسکے مگر فکری حوالے سے یہ اپنے دور اور بلوچ سپرٹ کی واضح تصویر کشی ہے جس نے بہرصورت بلوچ قوم کو دانشورانہ بنیادیں فراہم کرنے کی بھرپور جدوجہد کی ہے۔
آج کا لکھاری گر کچھ نہ کچھ لکھ رہا ہے یا کچھ نہ کچھ بول رہا ہے تو یہ انہی کی مرہون منت ہے جس طرح آج کی مزاحمت اُنہی بلوچ قومی راہنماؤں کی نشان زد کی ہوئی ڈگر پر چل رہی ہے جنہوں نے محدود وسائل کے ساتھ قومی مزاحمت کا آغاز کیا۔ اسی طرح اگر آج کچھ زبانی جمع خرچ یا قلم کا گھسیٹنا ہمارے لکھاریوں کا اثاثہ ہیں تو اُنہی قومی دانشوروں کی بدولت ہے جنہوں نے نہ صرف بلوچیت (سپر اسٹرکچر) کو ادب میں مرکز ٹھہرایا بلکہ مزاحمت میں بھی صف اوّل کاکردار ادا کرتے رہے ۔انہوں نے اپنی زندگی کے تیس تیس سال قُلی کیمپوں میں گذارے اور “قُلی کیمپ” انہی کے بدولت بلوچ قومی ادب میں جبر کی علامت کے طور پہ ابھرا ۔
جیسا کہ پہلے عرض کیا گیا کہ تحریک کا ابتدائی دور جس طرح طفلانہ یا جذبات کی مرہون منت ہوتا ہے اسی طرح کسی بھی قومی تحریک سے جڑت بھی شروع میں جذبات و احساسات کے سائے تلے پروان چڑھتی ہے۔ اب دانشور ان جذبات کو منظم کرکے عقل کے دائرے میں لاتا ہے ان جذبات کو یکسر نظر انداز کرنا فلسفہ کی دنیا میں جہالت کے سوا کچھ نہیں ،کیونکہ جذبات و احساس سے عاری لوگ تہذیبوں کے وارث نہیں ہوسکتے، اسی لیے ھیگل کی
Giest
کو مترجم “ذہن”کی بجائے “سپرٹ” لکھتے ہیں جہاں جذبات و عقل دونوں کا خمیر موجود ہے۔جس طرح تعقل کے لیے حسیات کا کردار اہم ہے اسی طرح تحریک کو عقل و دانش کے دائرہ کار میں لانے کے لیے ان جذبات کا ہونا بھی اہم ہے،لیکن یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ تحریک جب عقل و دانش کے دائرہ کار میں آتی ہے تو اب عقل و دانش ہی تحریک کے لیے بنیادی اصول فراہم کرنے فریضہ انجام دیتے ہیں، اسی لیے کسی بھی تحریک (جسم) میں دانشور کا کردار دماغ کی مانند ہوتا ہے۔ جہاں حسیات (جذبات) کو فہم سے گذار کر تحریک کے لیے عقلی اصول فراہم کرانا ہوتا ہے ۔ اب دانشور نہ صرف اس تحریک کو جذبات سے آگے کا مرحلہ یعنی عقل کے دائرے میں لاتا ہے بلکہ اس جڑت و تعلق کو بھی “تعقلی” تعلق بناتا ہے۔
یہاں آکر ھیگل یا ان جیسے فلاسفرز نے جب تاریخ کو شناخت کی جنگ کی تاریخ قرار دی یا مزاحمت کو عقلی دائرہ کار میں لائے تو انہیں دہشت گرد ، فاشسٹ ، ڈکٹیٹر اور سماج دشمن فلاسفر کہا گیا لیکن ھیگل جو کچھ لکھ رہا تھااس وقت ھیگل کو بقول اینگلز ایک ہی بندہ سمجھ رہا تھا کہ ھیگل مستقبل کے حوالے بہت خطرناک ثابت ہوگا تب ہی تو فرانس کے لکھاری عقوبت خانوں میں رہے جبکہ ھیگل اور جرمن کے فلاسفرز یونیورسٹیز میں پڑھاتے رہے ۔ان کی کتابوں سے لے کر لیکچرز تک مستقبل میں جرمن ، فرانس نشاۃ ثانیہ کے لیے پیش بہا خزانہ بنے۔
لیفٹ نے ھیگل کے میتھڈ کو پاؤں کے بل کھڑا کرکے انقلابات کے لیے بطور ہتھیار اپنایا اور اسی نسبت سے لیفٹ ھیگیلین کہلائے۔کہیں دانشور (جن میں سارتر کا استاد بھی شامل تھا) نے فرانس میں ھیگلین ازم میں مارکسزم و وجودیت کو نئے انداز میں بیان کیا اور ھیگل کو فرانس میں بھرپوراندازسے متعارف کیا ۔ بلوچ قومی تحریک کی موجودہ حالت دانشوری کے حوالے سے اب تک قحط الرجال کا شکار رہی ہے ، موجودہ تحریک میں شہدا کا لہو دانشور کے قلم سے زیادہ تحریک کو ایندھن فراہم کرتا رہا جبکہ کسی بھی قومی تحریک میں شہدا و ہیروز سے بڑھ کر بقول لینن دانش کا کلیدی کردار ہونا چاہیے ، تب جا کے قومی تحریک کامیابی سے ہمکنار ہوتی ہے ، یہاں کے دانشور کے بانجھ پن کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ وہ افریقن دانشور کی طرح اپنے وطن ، زبان و ثقافت کو مرکز بنانے کی بجائے کالونائزر دانشور سے زیادہ متاثر ہے وہ ابھی تک کالونائزر دانشور کےخول سے باہر نہیں نکل پایا جبکہ قومی دانشور ریاستی دانشور کے ہر لفظ و اصطلاحات کو کڑی ہاتھوں لے لیتا ہے۔ وہ ہر اس ریاستی بیانیہ کو اپنی قوم و وطن کے لیے خطرہ سمجھتا ہے جو قوم کو یکجہتی کی بجائے تقسیم کی طرف لے جائے۔
وہ ریاستی اجارہ داری و کسی بھی قومی بالادستی کیخلاف مضبوط نظریہ کے ساتھ اپنی زمین پہ ثابت قدم ڈٹا رہتا ہے۔ کالونائزڈ دانشور کی پہلی ترجیح بابا مری کی طرح قومی شعور کو اجاگر کرنا ہوتا ہے وہ اپنی فکر و عمل کے ساتھ اس قدر یکسوئی کے ساتھ ڈٹا ہوتا ہے کہ اسکی صبح و شام ، دن و رات اسی فکر و عمل میں گذرتے ہیں۔ وہ چند لمحے بھی اپنے لیے نہیں جیتا بلکہ تحقیق و تخلیق کو فکری و عملی طور پہ اجاگر کرتا رہتا ہے۔ وہ نہ صرف اپنی زمین پہ موجود تحریک کے نشیب و فراز سے واقف کار ہوتا ہے بلکہ فلسفہ ،تاریخ و لٹریچر کے حوالے سے عالمی تحاریک کا سیاسی مشاہدہ و مطالعہ کر رہا ہوتا ہے۔
عالمی تحاریک ،انقلابات میں دانشوروں کاکردار،ان تحاریک و انقلابات پہ ان دانشوروں کے تنقیدی نقطہ نظر اور مختلف مکاتب فکر کی آپس میں اکیڈمک مباحث کو سامنے رکھتے ہوئےاپنی زمین سے جڑی ہوئی تحریک کو اسی تاریخی و عالمی پس منظر میں دیکھنا ،اس پہ تنقید کرنا اور فکری حوالے سے قوم کو متحرک رکھنا ہی دانشوری کا خاصہ ہے۔ تاریخ میں دانشوروں کا کتابوں کے ساتھ عرق ریزی کرنا اور شب روز بغیر کسی خوف و مقصد کے ساتھ اپنی مقصد کے ساتھ جڑے رہنا ہی کسی محکوم قوم کی محکومیت کے خاتمہ کا سبب بن سکتی ہے ۔
بلوچ سماج کی ایک اور بدقسمتی یہ رہی ہے کہ اس سماج میں نرگسیت ، سستی شہرت جیسی بیماریاں ان کی جڑوں میں بیٹھ گئی ہے ،یہاں شاعر گلوکار ،دانشور اسٹیج اور قیادت ہجوم ڈھونڈ رہا ہے اس سب کا علاج بقول بابا مری بے رحم تنقید ہے لیکن بے رحم تنقید کرے کون ؟ کیا وہ لوگ بے رحم تنقید کرسکتے ہیں جو خود اس نرگسیت کا شکار ہوں؟۔جو اپنی ذات سے اوپر تک کا سوچ نہیں سکتے ہوں؟ جو ذاتی تعلقات و سستی شہرت جیسی ذہنی ، موذوی بیماریوں کا شکار ہوں ؟جو تنہائی کے خوف سے کسی پہ تنقید رکھتے وقت سو بار سوچتے ہوں؟ سرکاری و اخباری اشتہارات جسے بابا مری کاروباری میڈیا کہتے تھے یا وہ لوگ جو مراعات و عہدے یا کچھ سرکاری گرانٹس کے لیے قلم کو گروی رکھنے کو کوئی عیب نہ سمجھتے ہوں جنکی مجالس کا چہرہ الگ ، سوشل میڈیا کا چہرہ الگ،اجتماع کا چہرہ الگ ہو ، ایک ہی چہرے پہ سو چہرہ سجانے والے کبھی دانشور نہیں ہوسکتے۔دانشور اپنی دانش کے مطابق اپنی بات سامنے رکھتا ہے وہ اس خوف میں کبھی بھی مبتلا نہیں ہوتا کہ لوگ کیا کہیں گے۔ نہ ہی وہ تنہائی کے خوف شکار ہوتا ہے۔ وہ ہجوم کو خوش رکھنے کے سلیقہ سے بے بہرہ ہوتا ہے۔ اس کی تنہائی بقول نیطشے اس کی طاقت ہوتی ہے۔ اسکے الفاظ کسی بھی تحریک میں عملِ جراحی (سرجری) کا کام دیتے ہیں ۔بھلے آج وہ تنہائی میں زندگی گذارتا ہو لیکن اسکی کمٹمنٹ اسکا مستقبل کا تعین کرتا ہے۔ اس کی کمٹمنٹ اس کی شخصیت کا آئینہ دار ہوتی ہے ۔
اصل میں وہی زندگی کو جی رہا ہوتا ہے کیونکہ وہ صباء دشتیاری و صورت خان مری کی طرح مزاحمت و تنہائی کی خمیر سے واقف ہوتا ہے اس کی نظر قوم کی مخفی صلاحیت کو جان کر اس صلاحیت کو حقیقت کے روپ میں ڈھالتی ہے۔ جس طرح بیج کا جوہر درخت بننے پر مرتکز ہے لیکن اس کیلئے اسے ایک ماحول درکار ہوتا ہے۔ اب قومی جوھر کو جاننا اور ماحول دینا فہم و دانش کا کمال ہے لیکن یہاں ایسا قحط الرجال ہے کہ مخفی صلاحیت کو پہچاننا تو دور کی بات بلکہ حقیقی روپ کو بہروپ بناکر بلوچ قومی تاریخ کو مسخ کرکے پیش کیا جاتا ہے۔
قومی شعور یا بلوچ اسپرٹ جو کہ نوآبادیات کیخلاف اک مؤثر ہتھیار ہے اسی ہتھیار کو لکھاری مختلف رنگ و روپ دے کر اس ہتھیار کے جوھر کو تقسیم کاری کے ذریعے ختم کرنے پہ تلے ہوتے ہیں۔ جبکہ پوری بلوچ قوم کی تاریخی ، بلوچ قومی مزاحمت اسی بلوچ قومی جوہر کے درخت بننے کی طرف گامزن ہونے کی بدولت ہے ، اسی جوہر کو جاننا ہی جدلیاتی طریق کار ہے۔
اسی جوہر کو ھیگل لازمیت کہتا ہے اور اسی لازمیت کا جاننا بقول ھیگل آزادی ہے ، کسی بھی قوم کی تضاد کی نوعیت حاکم و محکوم ، نوآبادیایات و سامراج کی ہو وہاں لازمیت “قومیت” یعنی نیشنل ازم ہے۔
.(جاری ہے )۔