پائندخان خروٹی
ممکن ہے کہ آپ میں سے اکثر لوگوں کو بذلہ سنجی کے معنی اور اہمیت سے آگاہی نہ ہو تاہم یقیناً آپ کی زندگی میں ایسے واقعات رونما ہوئے ہونگے جن کا تعلق بذلہ سنجی سے ہے۔ کسی بھی دانشور، فلاسفر یا کسی ذہین شخص سے مل جل میں ایسے برجستہ جملے سننے کو ملے ہوں گے جو آپ کی توجہ کا مرکز بھی بنے ہوں اور آپ کی رہنمائی کا باعث بھی۔ بذلہ سنجی، حاضر جوابی، شگفتگی، حاضر دماغی، گفتگو میں برجستگی اور فوری جواب کے لطیف اظہار کا نام ہے۔ آج کے آرٹیکل میں میری کوشش ہے کہ علم ودانش کی چند عظیم شخصیات کے حوالے سے ایسے واقعات کا ذکر کروں جن کا تعلق ان کی بذلہ سنجی سے ہیں۔
سب سے پہلے پشتونخوا وطن اور برصغیر پاک و ہند کی تحریک آزادی کی صف آول کے ناقابل فراموش ہیرو کاکاجی صنوبرحسین مومند (1897 — 1963) کی بذلہ سنجی, برجستگی اور حاضر جوابی کا واقعہ آپ کے سامنے بیان کرنا چاہتا ہوں۔ برطانوی سامراج کے خلاف مسلح جدوجہد کے دوران تقریباً اٹھارہ سال تک مسلسل اپنے گھر، اپنے دوست و احبابِ اور علاقے سے دور رہے۔ حتیٰ کہ وہ عید کے دن بھی اپنے گھر نہ جا سکے۔ برطانوی سامراج کے خلاف مسلح جدوجہد اور طبقاتی مزاحمت کے دوران کاکاجی صنوبرحسین مومند کے گھر والوں نے ان کی شادی کی بات چھیڑ دی۔
جس خاتون سے شادی کے رشتے کا فیصلہ کیا گیا اسے کاکاجی صنوبر نے یہ کہا کہ اس وقت ہم دنیا کی سپر پاور کے خلاف حالت جنگ میں ہیں۔ دنیا کی سب سے بڑی سامراجی اور استحصالی قوت میرا اور ہمارے دیگر ہم فکروں کا پیچھا کر رہی ہے اور اگر شادی کر بھی لی تو ہونے والی بیوی کو وقت نہیں دے سکوں گا لہٰذا “شادی کر کے میں بیوی کے نام پر غلام نہیں رکھنا چاہتا۔
” بذلہ سنجی، شگفتگی اور شوخی کی ایک انوکھی مثال انگریزی زبان وادب کی معروف شخصیت جارج برنارڈ شا سے تعلق رکھتی ہے۔ مشہور ہے کہ وقت کی سب سے معروف اور حسین ڈانسر انجیلہ ڈنکن نے ایک دفعہ اس خواہش کا اظہار کیا کہ اسی کی شادی جارج برنارڈ شا سے ہو۔ جب وہ برنارڈ شا سے مخاطب ہو کر کہتی ہے کہ اگر میری شادی آپ سے ہو جائے تو ان کے ہونے والے بچے برنارڈ شا کی طرح ذہین اور ڈنکن کی طرح حسین ہو سکتے ہیں۔ یعنی بیک وقت ان کے بچے ذہین اور حسین ہوں گے۔برنارڈ شا نے شادی کی پیشکش سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ یہ بھی تو ممکن ہے کہ ہماری ہونے والی اولاد آپ کی طرح کم فہم و کند ذہن اور میری طرح جسمانی طور پر بدصورت یا کم شکل ہو۔
اس طرح ایک بڑے دانشور اور حسین رقاصہ رشتہ ازدواج میں نہ بند سکے۔ جیسا کہ آپ کو معلوم ہیں کہ دنیا بھر میں خاموش کامیڈی کے فن میں دو شخصیات چارلی چپلن ور مسٹر بین نمایاں مقام رکھتے ہیں۔ چارلی چپلن کی ملاقات ایک دفعہ وقت کے سب سے بڑے سائنسدان البرٹ آئن سٹائن سے ہوئی۔ اس موقع پر دونوں کے درمیان دلچسپ مکالمہ ہوا۔ البرٹ آئن سٹائن نے چارلی چپلن کے فن کو سراہتے ہوئے کہا کہ آپ کا فن آفاقیت کا حامل ہے اور ہر نسل اور زبان کے لوگ آپکی خاموش کامیڈی کو سمجھ لیتے ہیں اور باقاعدہ اسکی داد بھی دیتے ہیں۔ “
What I most admire about your art, is your universality۔ You don’t say a word, yet the world understands you
” اس پر چارلی چپلن نے برجستہ جواب دیتے ہوئے کہا کہ آپکی عظمت کہیں زیادہ ہے۔ لوگ آپ کی گہری اور پیچیدہ سائنسی باتوں کو نہیں سمجھتے ہوئے بھی آپ کی عظمت کو تسلیم کرتے ہیں اور آپ کو داد بھی دیتے ہیں۔ “
But your fame is even greater: the world admires you, when nobody understands what you say
فلسفہ کی دنیا کی ایک معروف شخصیت ژاں پال سارتر جسے فرانس کے سابق صدر چارلس ڈیگال نے فرانس کی پہچان یعنی والٹیئر قرار دیا تھا۔
اسکی تفصیل یوں ہے کہ الجزائر جو فرانس کی کالونی تھا میں قومی آزادی کی شاندار تحریک جاری تھی۔ ژاں پال سارتر دنیا بھر کی قومی آزادی کی تحریکوں کے ساتھ الجزائر کی تحریک آزادی کا اعلانیہ اور پر زور حامی تھا۔ الجزائر کی تحریک آزادی کی ہمدردی میں فرینچ اسٹوڈنٹس کی بڑی احتجاجی تحریک چلا رہے تھے۔ سینکڑوں کی تعداد میں گرفتاریوں کے باوجود احتجاجی تحریک روکنے کا نام نہیں لے رہی تھی اور بالخصوص سارا پیرس سراپا احتجاج بن گیا۔
فرانس کے انٹلیجنس اداروں کی رپورٹ یہ تھی کہ صرف ایک شخص سارتر کو گرفتار کرنے کی اجازت دی جائے تو یہ تحریک رُک سکتی ہے۔ صدر چارلس ڈیگال نے اس پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ سارتر فرانس کا والٹیئر ہے اگر اسے گرفتار کر لیا تو فرانس نہیں رہے گا اور میری حکومت کا جواز ختم ہو جائے گا۔ یہ کہہ کر صدر ڈیگال نے فرانس کی صدارت سے استعفیٰ دے دیا۔ اس واقعہ کا ذکر کرنا صرف سارتر کی شخصیت کا تعارف کرانا تھا۔
سارتر اپنی فلسفیانہ کاوشوں کے اعتبار سے وجوديت پرست تھا تاہم تاریخی مادیت کے حوالے سے وہ دیگر وجوديت پرستوں سے مختلف تھا۔ اور اس طرح وہ ایک علیٰحدہ مکتب فکر کا حامل تھا۔ خود سارتر کے کہنے کے مطابق کہ وہ مارکسسٹوں کے فیلو ٹریولر تھا۔ اسکے مقابلے میں اس کی محبوبہ سیمون دی بوئیر ایک فیمنیسٹ تھی لیکن دونوں کو ترقی پسند اور روشن خیالات پر مبنی رحجانات نے انھیں ایک دوسرے کے قریب کیا۔ دونوں کی ایک مشترک صفت یہ تھی کہ دونوں نان بیلیورز تھے۔ دونوں کی پچاس سالہ رفاقت کے پہلے فرینچ فلاسفر سارتر کی موت واقع ہوئی۔ اس موقع پر اسکی گرل فرینڈ سیمون دی بوئیر نے سارتر کو یاد کرنے کیلئے ایک مختصر کتابچہ ” الوداع ” کے نام سے قلمبند کیا جس میں اس نے سارتر کے ساتھ وابستگی اور دوستی کو یاد رکھنے کے ساتھ اپنی فکر کی انفرادیت کو برقرار رکھتے ہوئے کہا کہ ” آپکی موت نے ہمیں ہمیشہ کیلئے جدا ضرور کیا ہے مگر میری موت، ہمیں کبھی ملا نہیں سکے گی۔” ”
Your death does separate us but my death will not bring us together again
بذلہ سنجی، حاضر جوابی اور خوش طبعی کے حوالے سے فرانس سے ہی تعلق رکھنے والی انسانی تاریخ کی ایک نمایاں شخصیت نپولین بونا پارٹ کاذکر کرتے ہیں۔ نپولین بونا پارٹ فرانس کا ایک معروف اور ممتاز جرنیل تھا۔ اس نے انسانی تاریخ کے انتہائی اہم مرحلے انقلاب فرانس میں بھی کردار ادا کیا تاہم اس کے کچھ عرصہ بعد حکمران کی حیثیت سے اس نے آمرانہ راہ اختیار کی۔ انقلاب فرانس کے نتیجے میں بننے والی جمہوری حکومت کا خاتمہ کر کے غلامی کو نپولین بونا پارٹ نے دوبارہ بحال کر دیا جس کے نتیجے میں تاریخ میں اسے متنازعہ شخصیت کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔ جبکہ فرانس کے ترقی پسند حلقہ نے نپولین بونا پارٹ کو واضح طور پر آمر اور جابر قرار دیا۔
نپولین بونا پارٹ جسمانی قد کے حوالے سے بہت چھوٹا تھا۔ اس ضمن میں یہ واقعہ بیان کیا گیا ہے کہ ایک بار وہ ایک کتاب حاصل کرنا چاہتا تھا جو الماری کے اوپر پڑی تھی۔ اپنے جسمانی پست قد کی وجہ سے اس کا ہاتھ کتاب تک نہیں پہنچ سکتا تھا۔ اس نے اپنے ایک کرنل کو حکم دیا کہ وہ یہ کتاب اتار کر لائیں۔ مذکورہ کرنل نے حکم بجا لاتے ہوئے کتاب اس کے حوالے کی اور ساتھ یہ محسوس کرانے کی کوشش کی کہ وہ نپولین بونا پارٹ سے بڑا ہے۔ جرنیل نپولین نے بذلہ سنجی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا کہ ” تم مجھ سے بڑے نہیں بلکہ لمبے ہو۔”
یہ چند اہم اور ممتاز شخصیات کے حوالے سے محض چند واقعات بیان کئے گئے ہیں تاہم انسانی تاریخ برجستگی، شگفتگی اور بذلہ سنجی کی مثالوں سے بھری پڑی ہے۔ ہمارے خطے میں بھی ایسی شخصیات موجود ہیں اور ایسے واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں۔ یہ واقعات کسی فرد کی انفرادی صلاحیت کے ساتھ ساتھ انسانی ارتقاء اور علم ودانش کی مجموعی کیفیت کی نشاندہی کرتے ہیں۔ اس میں ضروری نہیں کہ معروف اور بڑی شخصیات کی زندگی میں ہی بذلہ سنجی، شوخی، خوش طبعی اور برجستگی کے واقعات تلاش کیے جائیں بلکہ عام آدمی کی معمولات زندگی میں بھی ایسی غیر معمولی صلاحیت اور ذہانت کا مظاہرہ ہوتا رہتا ہے۔ جسے دیکھنے، محفوظ کرنے اور تحریک و رہنمائی حاصل کرنے کی ضرورت ہے تاکہ تاریخ کو حکمران کی نظر سے دیکھنے کی بجائے سماج کے ایک خلقی کے توسط سے دیکھنے کا چلن عام ہو جائے۔
♣