حسن مجتبیٰ
یہ بات تھر میں ریت کے ٹیلے پر کانبھ (اجرک یا کسی بھی چادر کو ٹانگوں اور کمر کے گرد باندھ کر آرام سے بیٹھ جانا )نکالے ہوا بیٹھے تھری شخص یا بکریاں چراتے چرواہا بھی کیا کرتا تھا کہ “یہ جو پیجارو جیپ میں قادریے کیساتھ بیٹھی ہوئی گوری تھی قادر یے کا اسکے ساتھ “بڑا چکر” چلا ہوا تھا۔”۔
مگر قادریے کیساتھ گوری کا چکر چلا تھا کہ نہیں لیکن یہ کہانی کسی اور نے نہیں کسی طرح خود قادریے نے ہی کہی ہوئی ہوتی تھی کہ قادر یا کہانیوں میں رہنے والا آدمی تھا۔ وہ نہ فقط کہانیاں لکھتا تھا۔ ہر وقت کہانیاں سوچتا، کہانیاں بناتا، کہانیاں کہتا۔ بلکہ کہانیاں، پہنتا، کہانیاں کھاتا، کہانیاں پیتا شخص تھا۔
سندھ کے اس ایک صف اوّل کے بڑے کہانی کار عبدالقادر جونیجو کو اسکے تھر اور گھر کے لوگ قادریو کہتے تھے۔وہ اپنے لیے کہتا تھا وہ ریت اور پانی کے میلاپ سے بنا ہوا انسان ہے۔ ریت سے اس لیے کہ اسکے باپ کا تعلق تھر سے تھا اور ماں ملاح یا مچھیرن تھی جن کے شب و روز و روزی روٹی دریا شاہ بادشاہ سے لگےبندھے ہوتے ہیں۔
نئوں کوٹ اور نوہٹو کے بیچ اسکا گاؤں جنہان جونیجو جہاں کبھی پردیسی پرندے اور تلور اترا کرتے تھے وہاں عبدالقادر کا جنم ہوا۔
انگریز کے زمانے کا بھرتی اسکا ابا پولیس انسپکٹر مرید حسین ایک سخت گیر، انصاف پسند، پولیس عملدار تھا۔ اپنے ابا کی نوکری کی وجہ سے عبدالقادر اور اسکی ماں کو شہر شہر اور پولیس تھانوں کیساتھ والے کوارٹروں میں رہنا پڑا۔ جہاں اسکا ابا تو زیادہ وقت تفتییشوں کے سلسلے میں تھانے اور گھر سے باہر رہا کرتا لیکن یہ بچہ یا تو اپنے سے باتیں کرتا رہتا یا پھر پولیس لاکپ میں قید قیدیوں سے انکی وارداتیں اور انکی کہانیاں سنتا۔ انہیں کہانیاں سنانے کیلیے ان کے لیے وہ بیڑیاں بھی لایا کرتا۔
وہ کہتا تھا “اپنے سے باتیں کرنے میں کبھی میں ہیرو بن کر برے لوگوں اور برائی کو ختم کر رہا ہوں۔ اور کبھی چور کبھی پولیس والا“۔ یہیں سے اس نے تا عمر اپنے کردار بنانے شروع کیے ہونگے۔اور وہ ہر “انڈر ڈاگ” یا پچھاڑے ہوئے کی طرف ہوتا اور۔ “انڈر ورلڈ” سے بھی دوستی اور انکی کہانیاں معلوم کرنے کا چسکہ اسے اپنے ابا کی تھانیداری کی زمانے سے لگا ہوا تھا۔
اسکے دوست پولیس والے،چور،ڈاکو، افسر، استاد، شاگرد،وڈیرے، موالی، مداری، چرسی، بھنگی، ناٹکی کاٹکی شرابی کبابی،ربابی، صحافی جنہیں وہ ہمیشہ “جرنلسٹ “کہتا، طوائفیں،مولوی، لکھاری،مذہبی، لا مذہبی، وڈیرے،سرمایہ دار، جنرل کرنل سب دوست ہوتے۔ وہ ججمینٹل نہیں تھا۔ میں کہہ سکتا ہوں مجھ ناقص کا بھی وہ دوست تھا۔مصدق سانول کا بھی تو محمد حنیف کا بھی۔ لیکن اسکی سوئی روحی بانو پر اٹکی ہوئی تھی۔
روحی بانو کیساتھ اسکے معاشقوں کی اسکی زبانی سنی ہوئی کہانیاں حقیقت تھیں کہ افسانہ لیکن سچ تو یہ ہے کہ روحی بانو کے مرنے کے بعد وہ بھی بمشکل ایک سال زندہ رہا۔ اسکے دل میں حسن درس کی موت بھی گولی کی طرح اتری تھی لیکن وہ کچھ سال بچا رہا تھا۔حسن درس تھر یا تو نہیں تھا لیکن اس دراز قامت (نہ فقط جسمانی پر ہر طرح سے) کی طبعیت تھر کے ڈھاٹن اونٹ کی طرح تھی۔ عبدالقادر جونیجو کی کہانی۔ ہورو” والے اونٹ کی طرح اسے بھی ہمیشہ کا “ہورو” لگا ہوا تھا۔
اس نے مجھے بتایا تھا کہ اسکی ڈرامہ سیریز “کاروان “میں وڈیرہ علی نواز کا کردار فنکار دوست زمیندار عطا محمد پلی پر تھا اور ولیم فاکنر کے حوالے دینے والے دانشور ٹائپ نوجوان منصور کا کردار اسکے اور میرے دوست زاہد مخدوم پر تھا۔
جب اسکی ڈرامہ سیریز “رانی جی کہانی” یا “دیواریں “ پی ٹی وی پر سے نشر ہو تے تو سندھ کے شہروں یا گوٹھوں کی گلیاں ویران ہوکر کرفیو کا سا منظر پیش کرتی کیونکہ کہ سب لوگ۔ گوند بن کر ٹی وی سیٹوں کے آگے جاکر بیٹھتے۔ لیکن اسکا ایک اور شاہکار۔ ڈرامہ “سیڑھیاں ”تھا۔
ڈرامے شامے تھیٹر ناٹک اسکے اپنی جگہ اور بڑی بات لیکن اصل میں وہ سندھی زبان کا ورلڈکلاس افسانہ نگار اور ادیب تھا نہیں ہے۔شیخ ایاز کے بعد عبدالقادر وہ سندھی ادیب تھا۔ جوبہت اور ہر وقت دنیا بھر کا ادب و غیر فکشن پڑھتا رہتا تھا۔ ابھی اس نے کتاب اور لکھاری کا نام لیا نہیں سندھ میں پڑھنے کے رسیا نوجواانوں نے کتاب جاکر لی نہیں۔ اس کے گرد ہر وقت نوجوانوں کاجھمگٹا لگا رہتا۔ وہ ایک چلتا پھرتا لٹریچر فیسٹول تھا۔ ادبی میلے ٹھیلے تو اب لگنے شروع ہوئے ہیں۔ وہ اتنا سادہ تھا کہ اپنی مبینہ غیر مبینہ محبوباؤں کے فوٹو خالی شو باکسز میں بڑی عقیدت و احترام سےرکھا کرتا۔ سوشل میڈیا انسٹااگرام وغیرہ اسکا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکے تھے۔ نہ ہی تھر میں نکلنے والہ کوئلہ جس میں اچھوں خاصوں نےاپنے منہ زیادہ بد صورت کیے ہیں۔ ۔ وہ کہتا تھا ترقی تھوڑا بعد پہنچتی ہے چکلے پہلے کھلتے ہیں۔
وہ تھر کے تھوہروں پر کھلنے والے سرخ پھولوں جیسا تھا۔اس نے “چھوٹی سی دنیا” جیسا شاہکار سیریل ٹیلی ڈرامہ لکھا۔ جو لوگوں کا خیال ہے کہ اسکا مرکزی کردار خان صاحب اصل میں اسوقت کے وزیر اعظم محمد خان جونیجوپر طنز تھا۔
عبدالقادر جونیجو انہی دنوں جنرل ضیا کے دور میں اہل قلم کانفرنس میں شریک ہوا تھا۔ وہ بتاتا تھا کہ وزیراعظم محمد خان جونیجو شریک مندوبین کی نشستوں پر جاکر ان سے مصاحفے کرتا ہوا اس کے پاس بھی آیا۔ اور اسکے نام کے بیج پر وہ وہ رکا اور کہا کہ “تم کہاں کے جونیجو ہو” تھر کا بتانے پر کہا کہ “تم یہاں کیسے پہنچے!” عبدالقادر نے محمد خان جونیجو سے کہا “ جیسے آپ پہنچے میں بھی ایسے پہنچا”۔
عبدالقادر جونیجو اس چھوٹی دنیا میں بہت بڑا آدمی تھا۔ بہت بڑا آدمی لکھاری اور پڑھاکو۔ کئی سال ہوئے کہ کینیڈا سے مجھے جلاوطن پیارے دوست نے اپنے ایک خط میں لکھا تھا “میں ایک بھگوڑا ہوں۔پر میں اپنی سندھ اور اپنا جونیجو (عبدالقادر) ہمیشہ مس کرتا رہوں گا”۔
♥