ظفر آغا
کرناٹک کے مسلمان حجاب کے مسئلہ میں وہی غلطی کر رہے ہیں جو مشرقی ہندوستان، خصوصاً اتر پردیش کے مسلمانوں نے بابری مسجد کے معاملے میں کی تھی۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ حجاب کے معاملے میں بی جے پی حکومت کی نیت سہی نہیں ہے۔ دراصل بی جے پی مسلمانوں کے عقائد کی مخالفت کرتی ہے جب کہ ہندو عقائد کو ترجیح دی جاتی ہے۔
اس دوہری پالیسی کی تازہ ترین مثال یہ ہے کہ کرناٹک حکومت نے اسکولوں اور کالجوں میں حجاب پر پابندی لگا دی ہے۔ حالانکہ ادھر ابھی پچھلے ہفتے گجرات میں بی جے پی حکومت نے اسکولوں کے نصاب میں بھگوت گیتا کی پڑھائی لازمی قرار دے دی ہے۔ ظاہر ہے کہ بی جے پی کو عقائد سے مطلب نہیں ہے۔ اس کے لیے مسلم عقائد قابل اعتراض ہو سکتے ہیں جب کہ ہندو عقائد کی ترقی کے لیے وہی بی جے پی کچھ بھی کر سکتی ہے۔
اس لیے بات واضح ہے کہ کرناٹک میں حجاب پر اسکولوں میں جو پابندی لگی ہے وہ بنیادی طور پر ایک سیاسی مسئلہ ہے۔ دراصل یہ وہی سیاست ہے جس کی شروعات آر ایس ایس کی نگرانی میں بھارتیہ جنتا پارٹی نے سنہ 1986 میں بابری مسجد کا تالا کھلنے کے بعد سے کی تھی اور جس کے نتیجے میں وہ بی جے پی جو ہندوستان کی سیاست میں 1986 سے قبل صفر تھی، وہی بی جے پی اب اس ملک کو ہندو راشٹر بنانے میں کامیاب ہو چکی ہے۔ لہٰذا ہندوستانی مسلمان کو بی جے پی کی اس حکمت عملی کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ تو آئیے پہلے بابری مسجد–رام مندر معاملے میں بی جے پی کی کیا حکمت عملی تھی وہ سمجھیں!۔
بابری مسجد کا سنہ 1986 میں تالا کھلنے کے وقت سے اب تک بی جے پی کی سیاست کا بنیادی مرکز مسلم منافرت ہے۔ یعنی وہ کوئی نہ کوئی ایک ایسا مسئلہ کھڑا کرتی ہے کہ ہندوؤں کے دل و دماغ پر یہ تصور اور خیال گھر کر جائے کہ مسلمان ہندو دشمن ہے اور اس کو ’ٹھیک‘ کرنا ضروری ہے۔ چونکہ یہ کام محض بی جے پی ہی کر سکتی ہے اس لیے دشمن سے نجات دلوانے والی بی جے پی کو ہندو ووٹ ڈال دے۔ لیکن اس حکمت عملی کو ہندوؤں کے دل و دماغ پر مسلط کرنے کے لیے بی جے پی طرح طرح سے ہندو–مسلم دشمنی کے سمبل کا استعمال کرتی ہے۔
اس تناظر میں اب ذرا بابری مسجد–رام مندر قضیہ پر غور کیجیے۔ ایودھیا میں بابری مسجد بابر کے وقت سے قائم تھی۔ اس کے بارے میں ہندوؤں کا یہ خیال تھا کہ وہ بھگوان رام کی جائے ولادت پر مندر توڑ کر بنائی گئی ہے۔ ایک عرصہ سے وہ مقدمہ عدالت میں پڑا تھا۔ سنہ 1986 میں ایودھیا کی عدالت نے اس مسجد کا تالا کھولنے کی اجازت دے دی اور یہ بھی حکم دیا کہ حکومت کی نگرانی میں ہندو وہاں پوجا کر سکتے ہیں۔ بس اس فیصلے کے آتے ہی آر ایس ایس–بی جے پی کو موقع مل گیا۔ ایودھیا تنازعہ ایک ایسا معاملہ تھا جس میں عقائد کی بنیاد پر اللہ اور رام کا جھگڑا تھا۔ ایک طرف مسجد تھی تو دوسری طرف مندر تھا۔ معاملہ انتہائی نازک تھا۔ ایک طرف مسلم عقیدہ تھا تو دوسری جانب ہندو عقیدہ کا معاملہ تھا۔
چنانچہ مندر کا تالا کھلنے کے بعد وشو ہندو پریشد نے یہ مانگ رکھ دی کہ مسلمان رام مندر کے جائے مقام سے مسجد ہٹا لیں اور ہندوؤں کو وہاں پر رام مندر تعمیر کی اجازت دیں۔ بات بڑھنی شروع ہوئی۔ مسلمانوں نے اس معاملے پر ضد ٹھان لی اور اس کو محض عقیدہ کا مسئلہ سمجھا۔ چنانچہ بابری مسجد تحفظ کے لیے جلد ہی ایک بابری مسجد ایکشن کمیٹی سرگرم ہو گئی۔ اس بابری مسجد ایکشن کمیٹی نے جلد ہی اس معاملے پر اسٹریٹ سیاست شروع کر دی۔ اس وقت تک وشو ہندو پریشد کوئی اسٹریٹ سیاست نہیں کر رہا تھا۔ لہٰذا مسلمانوں سے اپیل کر رہا تھا کہ وہ بابری مسجد چھوڑ دیں۔ ادھر بابری مسجد ایکشن کمیٹی کی جانب سے ہزاروں مسلمانوں کی بڑی بڑی ریلیاں ہونے لگی تھیں جن میں نعرۂ تکبیر کی صداؤں کے ساتھ یہ قسمیں کھائی جا رہی تھیں کہ مسلمان جان دے دیں گے لیکن بابری مسجد پر آنچ نہیں آنے دیں گے۔
بابری مسجد کا تالا کھلنے کے بعد ایک لمبی مدت تک وشوا ہندو پریشد سڑکوں پر نہیں اترا جب کہ بابری مسجد ایکشن کمیٹی سرگرم رہی۔ اس کا نتیجہ کیا ہوا! ہندوؤں کے دل و دماغ میں یہ میسیج جاتا رہا کہ مسلمان ایودھیا میں رام مندر تعمیر کا مخالف ہے۔ اس کو یہ محسوس کروایا جانے لگا کہ خود اپنے ملک میں وہ رام مندر نہیں بنا سکتا ہے، جب کہ مسلمان ایک چھوٹی سی مسجد کے لیے جو چاہے کرتا ہے۔ جب ہندو ذہنوں میں یہ تصور جانے لگا تو اب وشو ہندو پریشد بھی سڑکوں پر سرگرم ہوئی۔
بس دیکھتے ہی دیکھتے وشو ہندو پریشد کی جانب سے لاکھوں کا مجمع اکٹھا ہونا شروع ہوا۔ جلد ہی ہندوستان ’جئے سیا رام‘ کے نعروں سے گونج اٹھا اور سڑکوں پر ’مندر وہیں بنائیں گے‘ کے نعرے لگنے لگے۔ یہ بی جے پی کی حکمت عملی کی کامیابی تھی۔ بابری مسجد کی آڑ میں آزادی کے بعد سے پہلی بار بی جے پی ہندو عوام کے ذہنوں میں یہ تصور پیدا کرنے میں کامیاب ہو گیا کہ مسلمان رام مخالف اور ہندو دشمن ہے۔ دھیرے دھیرے بی جے پی نے اڈوانی کی رتھ یاتراؤں کے ذریعہ اس معاملے پر ہندو غصے کو آنچ دینی شروع کی۔ آخر سنہ 1992 دسمبر کو ہندو غصہ اس عروج پر پہنچا کہ ایودھیا کی بابری مسجد گرا دی گئی۔ ہزاروں مسلمان دنگوں میں مارے گئے۔ اور اب ہندو رد عمل کا یہ عالم ہے کہ وہ مسلمان کو ہر وقت اپنا دشمن سمجھتا ہے اور وہ نریندر مودی جنھوں نے مسلمان کو 2002 کے گجرات دنگوں میں سبق سکھایا تھا، ان کو اپنا قائد مان کر ہندوستان کو باقاعدہ ہندو راشٹر بنا رہا ہے۔ ادھر مسلمان بالکل دوسرے درجے کا شہری ہوتا جا رہا ہے۔
بابری مسجد و رام مندر تنازعہ میں مسلمانوں سے جو غلطی ہوئی اس سے کم از کم اب مسلمانوں کو چند سبق حاصل کرنے چاہئیں۔ اولاً سڑکوں کی سیاست اس ہندو اکثریتی ملک میں مسلمان کے حق میں نہیں ہو سکتی ہے۔ یعنی اگر مسلمان احتجاج، مظاہرہ یا بند کرتا ہے تو ہندو بھی احتجاج، مظاہرہ یا دھرنا کرے گا۔ نتیجہ کیا ہوگا! ہندوؤں میں بی جے پی کے لیے ہمدردی پیدا ہوگی اور مسلمان کے تئیں نفرت پیدا ہوگی۔ آخر میں دنگے ہوں گے۔ مسلمان کا مالی و جانی نقصان ہوگا۔ ادھر بی جے پی کو چناؤ میں کامیابی ملے گی۔
دوسری بات جو بابری مسجد ایکشن کمیٹی کے تجربہ کے بعد واضح ہے، وہ یہ ہے کہ اگر مسلمان علماء کی قیادت میں اکٹھا ہوں گے تو پھر ہندو سادھو سنتوں کی قیادت میں پناہ لے گا۔ اس کا سیدھا سیاسی فائدہ بھی بی جے پی کو ہوگا۔ اگر مسلمان شریعت کی لڑائی لڑے گا تو ہندو ’ہندو دھرم‘ کا پرچم بلند کرے گا۔ اگر مسلمان اللہ اکبر کا نعرہ لگائے گا تو ہندو ’جئے سیا رام‘ کا نعرہ لگائے گا۔ ان تمام صورتوں میں مسلمان ہندو دشمن اور بی جے پی ہندو محافظ بن جائے گی۔ ظاہر ہے کہ اس طرح مسلمان کہیں کا نہیں رہے گا۔
اس تناظر میں یہ ظاہر ہے کہ کرناٹک کے مسلمان حجاب کے معاملے میں جس طرح سڑکوں کی سیاست کر رہے ہیں وہ ان کے حق میں صحیح ثابت نہیں ہوگا۔ اگر مسلمان بند کرے گا تو ہندو بھی وہاں بند کرے گا۔ اگر مسلم لڑکیاں حجاب پہن کر نعرۂ تکبر کے ساتھ سڑک پر اتریں گی تو ہندو جوان بھی بھگوا رنگ پہن کر سڑکوں پر اترے گا۔ اگر مسلمانوں کی جانب سے ایس این ڈی پی جیسی خالص مسلم جماعت کھڑی ہوگی تو ہندوؤں کی جانب سے بی جے پی کھل کر ہندو سیاست کرے گی۔ اس کا نتیجہ آخر وہی ہوگا جو یوپی کے مسلمانوں کا بابری مسجد ایکشن کمیٹی کی سڑکوں کی سیاست کے بعد ہوا۔ یعنی درجنوں فسادات ہوئے، آخر مسجد گئی اور اب مسلمان چوں کرنے کی حیثیت میں بھی نہیں ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ ان حالات میں مسلمان کرے تو کرے کیا!۔
ہندوستان میں اس وقت جو سیاسی حالات ہیں ان کے مد نظر مسلمانوں کے لیے محض وہی حکمت عملی کارگر ہو سکتی ہے جو رسول کریمؐ نے اپنے مکی دور میں اختیار کی تھی۔ یعنی مکہ میں رسول کریم نے دس برس تک اعلان نبوت کے بعد محض صبر سے کام لیا۔ یہاں تک کہ رسول پر کوڑا بھی پھینکا گیا لیکن حضرتؐ نے اُف بھی نہیں کی۔ ہندوستان کے حالیہ سیاسی ماحول میں مسلمان کے پاس رسول کے مکی دور کی طرح سوائے صبر کے اور کوئی چارہ نہیں ہے۔
مشرقی ہندوستان کے مسلمان کو یہ بات سمجھ میں آ چکی ہے، چنانچہ جمعہ کی نماز پر پارکوں میں گروگرام میں پابندی کے باوجود وہ سڑکوں پر نہیں اترا اور نہ ہی اس نے بند وغیرہ کیا۔ کرناٹک کے مسلمان کو بھی حجاب کے معاملے میں صبر سے کام لینا ہوگا۔ شرعی یعنی علماء کی قیادت سے سخت گریز کرنا ہوگا۔
اس معاملے میں ایس این ڈی پی جو سیاست کر رہی ہے وہ وہی جذباتی سیاست ہے جو حیدر آباد میں اسدالدین اویسی کرتے ہیں۔ اس سے ایس این ڈی پی کو تو سیاسی فائدہ ہوگا، لیکن کرناٹک کا مسلمان آخر میں مارا جائے گا۔ اس لیے کرناٹک سمیت سارے ہندوستان میں مسلمان کو جوش و جذبات میں نہیں ہوشمندی سے کام لینے کی ضرورت ہے۔ کرناٹک میں بھی وہاں کے مسلمانوں کو جوش میں نہیں ہوش سے کام کرنا چاہیے۔
روزنامہ قومی آواز، نئی دہلی