محمد شعیب عادل
عدم اعتماد کی تحریک کی کامیابی کے بعد مسلم لیگ نواز کے سربراہ ، میاں شہباز شریف وزیر اعظم کے عہدے کا حلف اٹھا چکے ہیں اور ان کی وزیراعظم بننے کی دیرینہ خواہش پوری ہو گئی ہے اور ان کی خواہش کو پورا کرنے میں امام سیاست آصف علی زرداری کی فہم و فراست شامل ہے ۔ اگر نواز شریف کو ذرا بھی سمجھ بوجھ ہوتی تو یہی تبدیلی دو سال پہلے یا پھر سال پہلے بھی آسکتی تھی۔
شریف خاندان میں دونوں بھائیوں کے درمیان ایک عرصے سے اقتدار کی کشمکش جاری تھی اور بالاخر شہباز شریف کامیاب ٹھہرے ہیں۔ ان کی کامیابی کی ایک وجہ تو ان کی ایسٹیبشلمنٹ سے اچھے تعلقات ہیں ۔ مشکل سے مشکل وقت میں انھوں نے اچھے تعلقات برقرار رکھنے کی کوشش کی ہے جبکہ بڑے بھائی نواز شریف اتنے غصیلے ہیں کہ جو جرنیل ان کو اقتدار سے فارغ کرے وہ اسے معاف کرنے کو تیار نہیں ہوتے۔
دوستوں کو یاد ہوگا کہ جب کوئی تین چار ماہ پہلے شہباز شریف ، آصف علی زرداری سے ملےاور اپنے ماضی کے رویے کی معافی مانگی اور مل کر چلنے کی درخواست کی تو آصف علی زرداری جو انتقام پر یقین ہی نہیں رکھتے ، شہباز شریف کے ساتھ چلنے کو تیار ہوگئے۔ اور اس وقت نوازشریف کے سپاہی شاہد خاقان عباسی اور منشی صحافیوں نے یہ پراپیگنڈہ کیا تھا کہ عمران حکومت گرانے کی کوئی ضرورت نہیں اور اسے اپنی مدت پوری کرنی چاہیے۔ وغیرہ وغیرہ
نواز شریف کو اس کا انتقامی رویہ اور جنرل باجوہ مخالف جرنیلوں کی ہدایات لے ڈوبی ہیں ۔سنہ 2009 میں بھی جب پیپلزپارٹی کی حکومت تشکیل پائی تو صدر آصف علی زرداری نے مخلوط حکومت بنائی اور مسلم لیگ نواز کو کو منہ مانگی وزارتیں دیں لیکن ساتھ نواز شریف کو یہ بھی سمجھایا کہ جنرل مشرف سے انتقام لینے کے جو دعوے کرتے ہو اس سے باز آجاؤ اور مل کر حکومت کرتے ہیں اور ایسی قانون سازی کرتے ہیں کہ فوج کا عمل دخل کم ہو۔ لیکن نواز شریف کا دماغ یہ سب کچھ قبول کرنے کو تیار نہیں تھا اور میثاق جمہوریت کرنے کے باوجود مشرف مخالف جنرل کیا نی سے جا ملا۔ جنرل مشرف کا تو کچھ نہ بگڑا مگر اگلوں نے اسے استعمال کرکے پھر لاوارث چھوڑ دیا۔
نواز شریف کو جب تیسری دفعہ برطرف کیا گیا تو اب اس کے انتقام کا نشانہ جنرل باجوہ تھا۔ پی ڈی ایم کے جلسوں میں انہوں نےجنرل باجوہ کا نام لے لے کر اس پر لعنت ملامت کی اور منشی صحافیوں نے یہ بات منوا لی تھی کہ نواز شریف ہی پاکستان کو وہ واحد لیڈر ہے جو ایسٹیبلشمنٹ کو چیلنج کررہا ہے۔ ایک منشی تو چاپلوسی کے ریکارڈ توڑتے ہوئے مینار پاکستان کو بھی نواز شریف کے آگے جھکا بیٹھا تھا۔ منشی صحافی اور پٹواری پیپلز پارٹی کو طعنہ دیتے نہیں تھکتے تھے کہ وہ ایسٹیبلشمنٹ کی ایجنٹ ہے کیونکہ وہ جنرل باجوہ پر لعن طعن نہیں کرتی۔
اس وقت بھی ہم جیسے کچھ سیاسی کارکنوں نے یہ بات کی تھی کہ بڑھکیں مارنے سے مسائل حل نہیں ہوتے۔ سیاست میں جو انتقام لیتا ہے وہ تاریخ بن جاتا ہے ۔ اس لیے بقول بے نظیر بھٹو شہید، جمہوریت ہی اصل انتقام ہے۔ایسٹیبلشمنٹ نے پیپلزپارٹی کے ساتھ کیا ظلم نہیں کیے مگر پیپلز پارٹی نے انتقام لینے کی بجائے ہمیشہ آگے کی طرف دیکھا ہے اور جمہوریت کی بحالی کی جدوجہد کی ہے اور ساتھ ساتھ ایسی قانون سازی کی ہے جس سے پاک فوج کا عمل دخل کم سے کم ہو۔ میں بار بار یہی کہتا ہوں کہ اگر 2009 میں نوازشریف میثاق جمہوریت سے غداری نہ کرتے تو حالات آج بہت مختلف ہوتے۔
اب شہباز شریف وزیر اعظم ہیں اور ان کے بیٹے حمزہ پنجاب میں سیاست کرنے کے لیے تیار ہیں۔ انھوں نے نواز شریف اور مریم نواز کو فی الحال سیاست سے آوٹ کردیا ہے۔ منشی صحافی بھی خاموش ہیں۔ یاد رہے کہ شہباز شریف کو اس مقام تک پہنچنا آصف علی زرداری کی فہم و فراست کی بدولت ممکن ہوا جو تمام سیاسی اختلافات بھلا کر سب کو ساتھ ملا کر سیاست کرنے پر یقین رکھتا ہے۔ مگر مجال ہے کہ کسی بھی منشی صحافی نے آصف علی زرداری کے کردار کی تعریف کی ہو۔ مگر آصف زرداری کو ان لوگوں کی کوئی پرواہ نہیں ۔ وہ ان سب کے پراپیگنڈے سے بے نیاز جمہوریت کے لیے اپنی جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہے۔
میری بھی کروڑوں پاکستانیوں کی طرح یہی خواہش ہے کہ شہباز شریف کی حکومت خوش اسلوبی سے اپنی مدت پوری کرے اور تمام سیاستدانوں کو ساتھ ملا کر قانون سازی کریں تو تبدریج تبدیلی کی امید کیا جاسکتی ہے۔
جیے زرداری