آج وزیرستان میں چار سوشل ایکٹیوسٹس سنید داوڑ، وقار داوڑ، اسد اللہ شاہ اور حماد داوڑ کو معلوم نامعلوم افراد نے میر علی حیدر خیل میں بے دردی سے فائرنگ کر کے شہید کر دیا۔
اتوار، 19 جون کے دن یہ چاروں اپنے دیگر ساتھیوں کے ساتھ سیر و تفریح کی غرض سے نکلے تھے۔ چند گھنٹے قبل اِنہوں نے اپنے فیس بُک پروفائل پر آخری تصویریں بھی شیئر کیں لیکن اِن کو اندازہ نہ تھا کہ ریاست کے پروردہ دہشت گرد ان کی آواز ہمیشہ کے لئے دبانے نکلے ہیں۔
یہ چاروں نوجوان طلباء وزیرستان میں امن کے خواہاں تھے۔ ان کا جرم یہ تھا کہ یہ اپنے علاقے میں تعلیم عام کرنا چاہتے تھے۔ یہ اپنے لوگوں کے لئے جامعات کی مانگ کر رہے تھے۔ یہ چاہتے تھے کہ علاقے کے بچے بندوق کی جگہ کتاب تھامے۔ یہ چاروں نوجوان کتابوں کے میلوں کا انعقاد کرتے تھے۔ بلڈ کیمپ لگایا کرتے تھے اور اپنے علاقے میں شعور کا بول بالا کرنا چاہتے تھے۔
اِن کا جرم صرف اپنا حق مانگنا تھا۔ یہ کبھی شہید نہ ہوتے اگر یہ بھی دیگر خاموش تماشائیوں کی طرح خاموش رہتے لیکن ان کا بولنا ان کا جرم ٹھہرا۔اطلاعات کے مطابق یہ چاروں ٹارگٹ کلنگ کے خلاف منظم آواز اٹھانے والے تھے جس کے لئے ان کی منصوبہ بندی مکمل ہو چکی تھی لیکن ظلم کی انتہا یہ کہ ریاست نے اپنے پروردہ دہشت گردوں کے ذریعے ان کی ٹارگٹ کلنگ کر دی۔
یہ پشتون ملکِ پاکستان میں دیگر شہریوں کی طرح برابر کے حقوق چاہتے ہیں لیکن ان کو تحفے میں خون آلود لاشیں ملتی ہیں۔ ہم پشتون بھی اِس ملک کے برابر کے مالک ہیں۔ لیکن بصد افسوس کہ سالوں گزرنے کے بعد بھی راؤ انوار جیسے مجرم کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوتی تاہم مجرمان کے لئے ہمدردیاں بٹورنے کے لئے ان کو ٹاک شوز کا حصہ ضرور بنایا جاتا ہے تاکہ وہ قوم کے سامنے اپنے کیے جُرم پر صفائی دے سکے۔
سوال یہ ہے کہ سوال کس سے کیا جائے؟ ان کے لہو کا جواب کس کے ہاتھوں پر تلاش کیا جائے؟
ہم عالمی گرے فہرست سے نکلنے پر خوشیاں تو مناتے ہیں لیکن ساتھ ہی تخریب کار عناصر سے قربتیں بھی بڑھاتے ہیں اور بعد میں اِنہی شہیدوں کو تخریب کار اور دہشت گرد ٹھہرا دیتے ہیں۔ پھر آپ اِن سے محب وطن ہونے کا ثبوت بھی مانگتے ہیں۔ آپ بتائیں یہ کیسے محب وطن پاکستانی بنیں؟ جب آپ اِن سے بولنے کا حق چھین رہے ہیں اور اِن کی آوازیں ہمیشہ کے لئے بند کر رہے ہیں۔ یہ باغی بنیں گے۔ یہ ریاست کے خلاف نکلیں گے۔ آپ کو اندازہ نہیں، ان کے اندر ایک لاوا پک رہا ہے جس کو ریاست مزید بھڑکا رہی ہے۔
ادیب یوسفزئی