فیصلے کے بعد سپریم کورٹ کے باہر خواتین کی تنظیموں کے احتجاج کا منظر
محمد شعیب عادل
امریکی سیاست ، پریس اور میڈیا میں دو موضوعات پر گرما گرم بحث جاری ہے۔ ایک اسقاط حمل اوردوسرا گن رائٹس۔
امریکی سپریم کورٹ نے اسقاط حمل سے متعلق پچاس سالہ قانون ختم کردیا ہے۔ سپریم کورٹ کے فیصلے مطابق ،اسقاط حمل غیر قانونی قرار دے دیا گیا ہے ۔اسقاط حمل کے حامی اس فیصلے کے خلاف احتجاج کررہے ہیں۔امریکہ بھر میں خواتین کی حقوق کی تنظیمیں اس فیصلے کے خلاف احتجاج کررہی ہیں۔ جبکہ اسقاط حمل کے مخالفین جشن منارہے ہیں۔
اس فیصلے نے امریکی سیاست میں ہلچل مچا دی ہے۔ یاد رہے کہ کوئی پچاس سال قبل 1972 میں امریکی سپریم کورٹ نے اسقاط حمل کو قانونی طور پر جائز قرار دیا تھا جس کو بنیاد پرست حلقوں میں ناپسندیدہ فیصلہ قرار دیا گیا تھا اور ان کی مسلسل کوشش تھی کہ اس قانون کو ختم کیا جائے۔
پچھلے پچاس سالوں میں کئی دفعہ ریپبلکن پارٹی کی حکومتیں بنی ہیں لیکن کسی نے اس قانون کو نہیں چھیڑا لیکن صدر ٹرمپ نے تین بنیاد پرست جج مقرر کرکے بنیاد پرست عناصر کو یہ موقع فراہم کردیا کہ روشن خیالی پر مبنی تمام قانون سازی کو بتدریج ختم کردیا جائے۔ یاد رہے کہ صدر ٹرمپ نے 2016 کی اپنی الیکشن مہم میں یہ وعدہ کیا تھا کہ وہ اقتدار میں آکر لبرل قانون سازی کو ختم کردیں گے۔
سپریم کورٹ کے بنیاد پرست ججوں کا کہنا ہے کہ اسقاط حمل کی گنجائش امریکی آئین میں موجود ہے اور نہ ہی مذہبی طور پر اس کی گنجائش ہے۔ اس فیصلے سے امریکہ ڈیڑھ سو سال پیچھے چلا گیا ہے۔جیسے پاکستانی آج بھی جنرل ضیا الحق کی گئی قانون سازی کو بھگت رہےہیں اسی طرح امریکی عوام بھی اگلے تیس سال ٹرمپ کے اٹھائے گئے اقدامات کوبھگتے گی۔
اس فیصلے سے امریکہ کی سرخ ریاستیں جو پہلے سے ہی اس قانون کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرتی تھیں فوری طور پر اسقاط حمل پر پابندی لگا دی گئی ہے جبکہ نیلی (لبرل) ریاستوں میں اسقاط حمل کو قانونی قرار دینے کے لیے فوری طور پر نئی قانون سازی شروع کردی ہے۔ لبرل ریاستوں نے سرخ ریاستوں سے آنے والی، اسقاط حمل کی خواہش مند، خواتین کو قانونی اور مالی امداد کی پیش کش بھی کردی ہے۔
کچھ تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ جب سپریم کورٹ کی اکثریت کے مطابق، “ابارشن” کا حق آئین میں موجود ہی نہیں تو فیصلہ قانونی طور پر درست ہے۔ بھلے ہمیں پسند آئے یا نہ آئے۔ کیا اقلیتی ججوں نے آئین کو درست نہیں سمجھا؟
یاد رہے کہ امریکی آئین 1787 میں لکھا گیا تھا تو اس وقت ابارشن کا کوئی ذکر نہیں تھا۔ یہ تو وقت کے ساتھ ساتھ خواتین نے یہ آواز اٹھانا شروع کی کہ ہمیں ابارشن کا حق دیا جائے۔ 1972 سے پہلے خواتین جب ابارشن کا حق استعمال کرتی تھیں تو ان پر بنیاد پرستوں کی طرف سے حملے ہوتے تھے۔ خواتین نے اپنے حق کے لیے عدالتوں سے رجوع کیا اور کیس سپریم کورٹ تک پہنچا اور عدالت نے فیصلہ دے دیا کہ ابارشن خواتین کے بنیادی حقوق میں شامل ہے۔
اب جب یہ قانون پاس ہوگیا تو بنیاد پرست ریاستیں یا عناصر اس میں لوپ ہول تلاش کرتے ہیں اور نچلی عدالتوں سے ہوتے ہوئے اپنا کیس سپریم کورٹ میں لے جاتے۔ چونکہ سپریم کورٹ میں بنیاد پرست اور ترقی پسند ججز کا توازن تھا اس لیے اسے ختم نہ کیا جا سکا۔ یہ کمی صدر ٹرمپ نے پوری کردی اور تین الٹرا کنزرویٹو جج لگا دیے جنہوں نے یہ قانون ختم کر دیا۔ بلکہ ایک بنیاد پرست جج جسٹس تھامس کلیرنس نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے کہ سیم سکیس میرجز کو بھی عدالت میں لایا جائے ہم اس پر غور کریں گے۔۔۔
صدر جو بائیڈن نے اس فیصلے کو ناپسندیدہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ میں اس فیصلے کو بدل نہیں سکتا۔ اب یہ کانگریس کا کام ہے کہ وہ اسقاط حمل سے متعلق قانون بنائے۔ یاد رہے کہ ڈیموکریٹکس کے پاس سینٹ میں اتنی اکثریت نہیں ہے کہ وہ وہاں سے قانون پاس کروا سکیں ۔ اس لیے صدر بائیڈن اور سپیکر ننسی پولیسی نے عوام سے اپیل کی ہے کہ وہ نومبر میں ہونے والے مڈ ٹرم الیکشن میں اسقاط حمل کو قانون بنانے کے لیے ڈیموکریٹ امیدواروں کو ووٹ دیں۔
امریکہ میں دوسرا سلگتا ہوا موضوع گن کنٹرول کا ہے۔ امریکہ میں ہر سال سینکڑوں افراد گن وائلنس کی نذر ہوجاتےہیں۔ اور جب بھی ڈیموکریٹس گن کنٹرول سے متعلق قانون سازی کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو بنیاد پرست ریپبلکن اس میں رکاوٹ بن جاتےہیں ۔
یاد رہے کہ امریکی آئین کی دوسری ترمیم کے تحت ہر امریکی شہری کو اپنے تحفظ کے لیے گن رکھنے کاحق حاصل ہے۔ دوسری ترمیم 1791 میں کی گئی تھی جس کے تحت ہر شہری کو گن رکھنے کا اختیار ملا۔ اس وقت ریاستوں کی اپنی ملیشیا ہوتی تھی اور امن و امان کی صورتحال ان ملیشیا کے رحم و کرم پر ہوتی تھی ۔
لیکن آج تقریبا ڈھائی سو سال گذرنے کے بعد امریکی ریاست اتنی ترقی یافتہ ہوگئی ہے اور اس کے قانون نافذ کرنے والے ادارے اتنے مضبوط ہوگئے ہیں کہ اب گن رکھنے کی ضرورت نہیں۔ لیکن بنیاد پرست آئین کو اتنا مقدس خیال کرتےہیں کہ اس گن کنٹرول پر کسی بھی قانون کے خلاف کھڑے ہوجاتے ہیں بھلے ان کے بچے سکولوں میں قتل ہوتے رہیں۔