ظفر آغا
آج 25 جون کو ایمرجنسی کی مذمت کا بازار گرم ہے۔ یقیناً ایمرجنسی کا نفاذ قابل مذمت ہے۔ وہ آزاد ہندوستان کی تاریخ کا سیاہ باب تھا کیونکہ اس دور میں ملک کی جمہوریت پر سیاہ بادلوں کا سایہ تھا۔ لیکن اس دور کا کیا کیجیے کہ جب کوئی ایمرجنسی نافذ نہیں لیکن ایک سرکار کے خلاف ایک معمولی سے ٹوئٹ پر لوگوں کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے ٹھونسا جا رہا ہے۔ آج کے مقابلے میں ایمرجنسی کا دور کتنا خطرناک تھا اس سلسلے میں مجھے ایک واقعہ یاد آ رہا ہے۔
جی ہاں، ہم نے سنہ 1975 سے 1977 تک کا ایمرجنسی کا دور دیکھا تھا۔ ظاہر ہے کہ ہم نوجوان تھے۔ اس وقت الٰہ آباد یونیورسٹی میں پڑھ رہے تھے۔ اس نوجوانی میں ہمارا بہت وقت الٰہ آباد کافی ہاؤس میں گزرتا تھا۔ تمام نوجوانوں کی طرح ہم بھی اس وقت کی اندرا حکومت سے سخت ناراض تھے۔ ہم اور ہمارے دوست و احباب تقریباً روز ہی الٰہ آباد کافی ہاؤس میں اکٹھا ہوتے اور روز ہی یہ جا وہ جا گفتگو کا سلسلہ سیاست اور پھر حکومت کی مذمت تک پہنچ جاتا۔
ایسے ہی روز کے معمول کے دوران ہم اور ہمارے دوست کافی ہاؤس میں بیٹھے تھے۔ وہی کافی کی خوشبو اور سگریٹ کے دھوئیں کے بیچ ہم سیاسی حالات پر محو گفتگو تھے۔ یکایک ہمارا ایک اور دوست آن پہنچا۔ اس کے ساتھ ایک اجنبی نوجوان اور تھا۔ اس نے نئے نوجوان کا ہم سب سے تعارف کروایا۔ پتہ چلا وہ حضرت پاکستان سے تشریف لائے ہیں اور ان کا تعلق ذوالفقار علی بھٹو کی پارٹی کے یوتھ وِنگ سے ہے۔ بھٹو اس وقت جیل میں تھے۔ ضیاء الحق کا دور تھا۔ بھٹو کی پارٹی پر پابندی لگی تھی۔ ہم سب نے ان کا گرم جوشی سے استقبال کیا۔ اور پھر اپنی سیاسی گفتگو میں محو ہو گئے۔ ہم کو یہ بھی یاد نہ رہا کہ ہمارے درمیان ایک باہر کا بھی شخص بیٹھا ہے۔
خیر، وہ نوجوان کافی دیر ہمارے ساتھ بیٹھا رہا اور خاموشی سے ہماری گفتگو سنتا رہا۔ پھر وہ جن کے ساتھ آیا تھا ان دونوں نے جانے کا ارادہ کیا۔ لیکن جانے سے قبل اس پاکستانی نوجوان نے ہم سب کو مخاطب کیا اور بولا ’اگر آپ برا نہ مانیں تو ایک بات کہوں !‘ ہم سب ایک ساتھ ہی بول اٹھے، جی ہاں، جی ہاں، فرمائیے! اس نے ایک ٹھنڈی سانس بھری اور بولا: یہ کیسی ایمرجنسی ہے! ’اگر ہم اپنے ملک میں کافی ہاؤس میں بیٹھ کر اس طرح حکومت کے خلاف گفتگو کر رہے ہوتے تو فوج کے سپاہی اندر گھس کر کب کا ہم کو گرفتار کر چکے ہوتے۔‘ پہلے تو یہ سن کر ہم سب سناٹے میں آ گئے۔ پھر ایک دم سے سب ہی لوگ ہنس پڑے۔ وہ مسکرایا اور اپنے ساتھی کے ساتھ واپس چلا گیا۔
جی ہاں، آج ہندوستان میں ایک ٹوئٹ پر صحافی گرفتار ہو رہے ہیں۔ کوئی سینسر نہیں لیکن میڈیا حکومت کے قصیدوں سے بھرا ہے۔ عدلیہ کا لب و لہجہ بھی حکومت کا سا ہی نظر آ رہا ہے۔ اگر آپ احتجاج کریں تو بلڈوزر سے مکان مسمار کیے جا رہے ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ پولیس احتجاج کرنے پر کانگریس کے دہلی ہیڈکوارٹر میں گھس کر احتجاج کرنے والوں کی پٹائی کر رہی ہے۔ یہ سب کچھ ایمرجنسی کے نفاذ کے بغیر ہو رہا ہے۔
روزنامہ قومی آواز، نئی دہلی
♠