سابق وزیراعلیٰ بلوچستان نواب اسلم رئیسانی نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں وکلاء کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہم ہمیشہ یہ سنتے ہیں کہ پاکستان کا مطلب کیا، لا الہ الا اللہ کی جہاں تک بات ہے اس کے بغیر ہمارا ایمان مکمل نہیں۔ اگر اسلامک ریپبلک پاکستان کو دیکھیں تو شرعی عدالت یا قاضی کی عدالت یا مجلس شوریٰ کے فیصلے کو سول کورٹ مسترد کردیتا ہے، یہ اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے آپ خود دیکھیں۔ کہتے ہیں کہ علامہ اقبال نے پاکستان کا خواب دیکھا جبکہ جاوید اقبال کہتے ہیں کہ انہوں نے کوئی خواب نہیں دیکھا۔ علامہ اقبال میرے پسندیدہ شاعر ہیں۔ ایک بیورو کریٹ کو میں نے علامہ محمد اقبال کا شعر سنایا تو انہوں نے ایک دم مجھے بولنے سے منع کردیا۔
انہوں نے کہا کہ سورج کو اگر ایک انگلی سے چھپانے کی کوشش کریں تو یہی حال یہاں ہے کہ جھوٹ کو چھپانے کیلئے ہم جھوٹ پر جھوٹ بولتے ہیں۔ ہم یہاں کمیشن بناتے ہیں کہاں گیا حمود الرحمن کمیشن۔ حمود الرحمن کمیشن کو اللہ غریق رحمت کرے ۔سنا ہے کہ حمود الرحمن کمیشن میں بھی ترمیم کی گئی ہے۔
پاکستان اس لیے نہیں بنا تھا کہ یہاں ظلم اور جبر ہو اور فوج کشی ہو ہر دن۔ خان میر احمد یار خان مرحوم نے جناح کیساتھ ایک معاہدہ کیا۔ لیکن اسلام کے نام پر ہم نے پاکستان کیساتھ الحاق کیا۔ آج بھی میں اس معاہدے کو ٹوئٹ کرتا رہتا ہوں کہ اس پر عملدر آمد کرو۔
سابق وزیر اعلی نے کہا کہ بلوچستان میں 75 سال سے آمریت چل رہی ہے، ڈھائی گھنٹوں میں جماعتیں بنتی ہیں، انتخابات ہوتے ہیں، حلقوں کا اس طرح ترتیب دیا جاتا ہے کہ ایک سفید کاغذ پر مختلف حلقوں کا نام لکھا اور کہا جاتا ہے کہ حلقے بناؤ۔ اس طرح ریاست کیسے چلے گی۔ ہم اس لیے پاکستان میں شامل نہیں ہوئے تھے کہ ہم یہاں بے عزت ہوں۔ میرا بھائی بم دھماکے میں مارا گیا چار سو لوگوں کیساتھ، اسمبلی میں میری پہلی قرار داد تھی کہ سی پیک کو ایوان کی پراپرٹی بنایا جائے۔
کہتے ہیں کہ چین ہمارا دوست ہے، بے شک ہوگا، کم از کم ہمیں بلوچ اور پشتون کو پتا چلے کہ ہمارے علاقے سے جو روٹ گزر رہا ہے اس میں ہمارا کیا حصہ ہے۔ نوابزادہ ہمایوں جوگیزی کے مطابق میں اپنی زمین پر جس سے سی پیک روٹ گزر رہا ہے اس پر نہ پیٹرول پمپ بنا سکتے ہیں نہ ریسٹورنٹ تو ہم اس روٹ کو کیا کریں گے۔ بہت سی چیزیں ہیں لیکن اسلام آباد والے اور پنڈی والے سننے کو تیار نہیں۔
انکا کہنا تھا کہ ہمارے بلوچستان میں بلوچ علاقوں میں آزادی کی تحریک چل رہی ہے، پاکستانی فوج کہتی ہے دہشت گردی، نہیں وہاں آزادی کی تحریک چل رہی ہے کوئی دہشت گردی نہیں۔ پشتونوں کی طرف بھی اسی طرح آزادی کی تحریک چل رہی ہے، جیسے تحریک طالبان پاکستان۔
وہ کہتے ہیں کہ ہم پشتون علاقوں کو الگ کرنا چاہتے ہیں۔ اگر پاکستانی اسٹیبلشمنٹ سمجھتی ہے کہ بندوق اور توپ کے ذریعے حالات ٹھیک کیے جاسکتے ہیں تو یہ غلط فہمی ہے۔ آج بھی ہم یہی کہتے ہیں جن میں پشتون بھی ہیں کہ بندوق کی طاقت سے آپ کچھ نہیں کرسکتے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ عبیداللہ کو اٹھانے والے آئی ایس آئی کے لوگ ہیں۔ جب افغانستان میں طالبان آئے تو یہاں جلوس نکالے گئے۔ کوئٹہ میں جنرل سرفراز علی کے ہیلی کاپٹر حادثے کے بارے میں دو خبریں ہیں ایک امریکن ایمبسی سے آیا ہے کہ ہم معذرت کرتے ہیں کہ تکنیکی غلطی سے ہیلی کاپٹر کو ٹارگٹ کیا گیا۔ دوسری جانب سے بلوچ تنظیم (براس) کی جانب سے آئی کہ ہیلی کاپٹر کو ہم نے ہٹ کیا ہے، اب کس بات پر یقین کیا جائے۔
گوادر میں ماسٹر پلان میں قبضہ کی گئی زمینیں میں نے چھڑائی ہیں، نیوی کو میں نے جگہ دی۔ قصور وار ہم ہیں، سویلین لوگ قصور وار ہیں جو ہم فوجیوں کی طرف چلے جاتے ہیں، ہم نہ ہوں تو نہ کوئی بندہ اغوا ہوگا، نہ ہی ٹارگٹ کلنگ ہوگی، ٹارگٹ کلنک بھی یہی لوگ کروا رہے ہیں ہمارے لوگوں سے۔
انہوں نے کہا کہ میں ہمیشہ کہتا رہا ہوں کہ ہمارے لاپتہ افراد کو رہا کرو، اب میں یہ بالکل نہیں کہوں گا بلکہ اب کہوں گا کہ ہمارے لاپتہ لوگوں کو عدالت میں پیش کرو۔ یہ سوچنے کی بات ہے کہ اتنے لوگ جو پہاڑوں میں گئے ہیں یہ کیوں گئے ہیں۔ یہ لوگ وکیل ہیں، ڈاکٹر ہیں، انجینئر ہیں، یہ پڑھے لوگ ہیں یہ کسی کو قبول نہیں کریں گے نہ مجھے اور نہ آپ کو۔ بلوچ آزادی کیلئے لڑ رہے ہیں دوسری جانب فوج ہے اور درمیان میں ہم۔ اگر آپ ہمیں باہر پھینک دیں گے تو پھر کیا ہوگا یہاں تو صرف اور صرف بندوق ہی بندوق ہوگی۔
اس ریاست میں قوموں کے حقوق کو آپ نے قبول کرنا ہوگا۔ جناح نے ہمیں آزادی نہیں دی۔ یہاں بلوچ آزاد تھے، پشتون آزاد تھے، سندھی آزاد تھے، پنجابی آزاد تھے۔ آپ کی غلط پالیسیوں سے کشمیر میں خود مختار کشمیر کی بات چل رہی ہے، آپ لوگوں کو کب تک دبائیں گے۔
انہوں نے کہا گوادر ہم سے چھین لیا گیا،چیف منسٹر کا دفتر آج بریگیڈ ہیڈ کوارٹر ہے۔ پاکستانی فیڈریشن کے اندر اپنے قومی حقوق کی جدوجہد کررہے ہیں، ہم لوگ پاکستان نہیں توڑ رہے، پاکستان تم لوگ توڑ رہے ہو۔ کہتے ہیں کہ انڈیا کی، را کی مداخلت ہے، میں کہتا ہوں کہ انڈیا کا باپ یہاں آئے گا، بلوچوں اور پشتونوں کے درمیان۔ بلوچستان میں لاپتہ افراد کو سرد خانوں سے نکال کر جعلی مقابلوں میں مار دیا جاتا ہے۔ ہمیں دہشت گردی کے مطلب کی وضاحت کرنا ہوگی۔
بشکریہ: بلوچستان پوسٹ