عابد میر
چودہ اگست2022 کو حکومت پاکستان کی جانب سے صدارتی ایوارڈ کی جو لسٹ جاری کی گئی، اس میں 234 ویں نمبر پہ تمغہ امتیاز پانے والوں میں ارشاد مستوئی کا نام بھی ہے۔ یہ ہمارے لیے اتنا ہی تکلیف دہ ہے، جتنا ارشادکا بہیمانہ قتل تھا۔
ارشاد کو 28 اگست 2014 کو اس کے دفتر میں گھس کر اس کے چہرے پر چار گولیاں ماری گئیں۔ وہ تب آن لائن نیوز ایجنسی کا بیورو چیف اور بلوچستان یونین آف جرنلسٹس کا جنرل سیکرٹری تھا۔ اس کے قتل پر بلوچستان اور پاکستان سمیت دنیا بھر کی صحافتی تنظیموں نے احتجاج کیا۔
حیران کن طور پر ارشاد کے مبینہ قاتل چند ہی ماہ میں پکڑ لیے گئے۔ میں کالج میں تھا، ایک دن صبح سویرے صحافی دوستوں کی جانب سے کال آئی کہ ارشاد کے قاتل پکڑے گئے ہیں، ان کے اعتراف جرم کی لائیو کوریج وزیر داخلہ کے آفس میں ہو رہی ہے، آپ بھی آ جائیں۔
سول سیکرٹریٹ میں وزیر داخلہ کے دفتر میں دو بلوچ نوجوانوں کے منہ پر کپڑا ڈال کر پیش کیا گیا۔ ان کا اعترافی بیان وڈیو کی صورت دکھایا گیا۔ جس میں قتل کرنے والے نوجوان نے یہ اعتراف کیا کہ وہ بی ایل اے کے لیے کام کرتے ہیں اور انہوں نے یہ قتل حیربیار مری کی ہدایت پر کیا۔ ان کا کہنا تھا اس سے ہمیں یہ فائدہ ہو گا کہ ہم دنیا کو بتائیں گے کہ ریاست کسی بلوچ صحافی کو بھی نہیں چھوڑتی۔
ہمارے لیے یہ شاکنگ تھا۔ نوجوان یہاں کے مقامی تھے۔ ایک کا تعلق خضدار، دوسرے کا ہدہ سے تھا۔ ہم نے سرکار سے کہا ہمیں ان تک رسائی دی جائے، ہم ان سے خود بات کرنا چاہتے ہیں۔ دونوں کو گرفتار بھی ایف سی نے کیا تھا اور وہ ایف سی کی ہی کسٹڈی میں رہے۔ سرکار نے کہا فیملی اور سینئرصحافی وفد بنا لیں، ہم جلد ملاقات کروا دیں گے۔
ابھی یہ معاملات چل ہی رہے تھے کہ ایک دن اخبار میں خبر آئی کہ ایف سی نے بی ایل اے کے دو گرفتار نوجوانوں کی نشان دہی پر مستونگ کے قریب ایک آپریشن کیا۔ جس میں سامنے سے ہونے والی فائرنگ میں دونوں نوجوان مارے گئے۔ یہ دونوں وہی نوجوان تھے، جنہیں ارشاد کے قاتلوں کے طور پر پیش کیا گیا تھا۔
یوں ارشاد کے قتل کی فائل سردخانے کے حوالے ہو گئی۔ اس کا خاندان آج تک بلینک ہے، ہمیں نہیں معلوم کہ اسے کس نے قتل کیا؟ اور کیوں قتل کیا؟ اور جب ریاست قاتل نہ ڈھونڈ سکے یا ان کی پردہ پوشی کرے تو ہمارے نزدیک وہ اس قتل میں شامل ہے۔
اب اسی قاتل نے اپنے مقتول کے لیے ایوارڈ کا اعلان کیا ہے۔
ارشاد میرا ماموں تھا، میرا ساتھی تھا، میرا دوست تھا، میرا یار تھا، میرا بازو تھا۔ میں کئی بار اس کا قتل یاد کر کے نیند سے ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھتا ہوں۔ پچھلے سال کے اپنے “گریٹ ڈپریشن” کا تجزیہ کرنے بیٹھا تو اندازہ ہوا کہ اس میں ایک ہاتھ ارشاد کے اس بہیمانہ قتل سے جڑی یادوں کا بھی ہے۔ میں اس “خوف” سے آج تک نہیں نکل پایا۔
ارشاد کے قتل کے بعد اس کے اپنے صحافی دوست جتنی مدد کر سکتے تھے، کی۔ بلوچستان حکومت کی طرف سے بیس لاکھ روپے اس کے اہل خانہ کو ملے۔ اس کی اپنی انشورنس اور پریس کلب کی گروپ انشورنس کے پیسے ملا کر جو بنا، آج تک اس کے بچے اسی کے سہارے جی رہے ہیں۔ ریاست نے، سرکار نے کبھی پلٹ کا کوئی حال نہ پوچھا۔
آج وہ ریاست اس کے لیے تمغے کا اعلان کر رہی ہے۔ اس فہرست میں اس کا نام دینے والے یقیناً اس کے خیرخواہ ہوں گے، لیکن جو ارشاد کی اور اس کے خاندان کی جدوجہد سے آگاہ ہیں، وہ دوست ایسا کرتے ہوئے ایک بار سوچتے ضرور، ہم سے پوچھ تو لیتے۔ ہم اس تمغے کو ارشاد کی، اس کے اہلِ خانہ کی، اپنے خاندان کی توہین سمجھتے ہیں۔
ہم یہ ایوارڈ اپنے قاتلوں کے منہ پر واپس مارتے ہیں۔
ہم نے اپنے مقتول کے لیے انصاف چاہا تھا، ایوارڈ نہیں۔
♠