لیاقت علی
جنوبی پنجاب صوبہ یا سرائیکی صوبے کےقیام کا مسئلہ گذشتہ کچھ سالوں سے پاکستانی سیاست کا اہم موضوع بن چکا ہے۔ تینوں بڑی اقتداری سیاسی جماعتیں پنجاب کے جنوبی اضلاع پرمشتمل یہ صوبہ بنانے پرمتفق ہیں۔ ن لیگ توایک قدم آگے بڑھ کربہاولپورصوبہ بنا نےکوبھی تیارہے۔ان سیاسی جماعتوں کےمابین اختلاف صرف اس بات پرہےکہ اگرکبھی یہ صوبہ قائم ہوہی گیا تواس کا کریڈیٹ ان تینوں میں سے کس سیاسی جماعت کوملے گا۔
اقتداری سیاسی جماعتوں کا موقف ہے کہ وہ جنوبی پنجاب صوبہ صرف انتظامی بنیادوں پرقائم کرناچاہتی ہیں نہ کہ لسانی یا ثقافتی بنیادوں پر کیونکہ ان کو ڈر ہے کہ لسانی اورثقافتی بنیادوں پرنئےصوبےکے قیام سےپاکستان میں مزید صوبوں کےقیام کا پنڈورا باکس کھل جانے کا قوی امکان ہے۔ نئے صوبے کے قیام کے لئےجاری بحث میں یہی وہ مقام ہےجہاں سرائیکی قوم پرست بحث میں شامل ہوتے ہیں۔
سرائیکی قوم پرستوں کا موقف ہےکہ اقتداری پارٹیوں کی طرف سےجنوبی صوبہ بنانے کا وعدہ دراصل سرائیکی زبان، ثقافت کو مسترد کرنے اوران کے قدرتی اورانسانی وسائل پر قبضہ برقرار کھنے کی کوشش ہے۔ سرائیکی قومی پرست کہتے ہیں کہ دراصل جنوبی صوبہ کے نام پر سرائیکی قوم کو ان کی زبان،ثقافت اوروسائل سے محروم کرنے کی منظم کوشش کے پس پش وہی قوتیں ہیں جو پاکستان کے وفاق میں شامل چھوٹے صوبوں کے وسائل پر قبضہ جمائے ہوئے ہیں اور مختلف حیلوں بہانوں سے اس قبضے کا جواز تراشتی رہتی ہیں۔ ان کے نزدیک نیا صوبہ لسانی اورثقافتی بنیادوں پرتشکیل پانا چاہیے نہ کہ انتظامی بنیادوں پر کیونکہ انتظامی بنیادوں پر صوبے کا قیام دراصل سرائیکی قوم پرستی سے توجہ ہٹانا ہے۔
محبوب تابش نے اپنی کتاب سرائیکی قومی وسیب تنا ظرمیں سرائیکی قوم کی تاریخ، عہد بعہد اس کی نشوونما اورارتقا کا جائزہ اورتجزیہ پیش کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ سرائیکی قومی تحریک کسی بھی طرح کی مراعات اورمطالبات کی طالب نہیں ہے کیونکہ مطالبات اورمراعات ہمیشہ شخصی غلاموں اورملازمت پیشہ لوگوں کے ہوتے ہیں جب کہ سرائیکی نہ توملازم ہیں اورنہ ہی کسی کے شخصی ملازم۔ سرائیکی ہر طرح اور ہر لحاظ سے ایک مکمل قوم ہیں اورسرائیکی صوبے کے قیام کی تحریک قومی تحریک ہے جس کا مقصد صرف اورصرف وفاق پاکستان میں اپنی خودمختاری قومی اکائی اورثقافتی اورلسانی شناخت حاصل کرنا ہے اور اس سے کم پر کسی صورت رضامند نہ ہونا سرائیکی قومیت کا یک نکاتی ایجنڈا ہے۔
محبوب تابش سرائیکی وسیب کو وادی سندھ کی آغوش میں پرورش پانے والی قدیم ترین تہذیبوں کا لازمی حصہ سمجھتے ہیں۔ ان کے مطابق چولستان میں ہڑپائی عہد کے درجنوں ایسے آثار ملتے ہیں جن میں سو سے بھی زیادہ آثار ایسے ہیں جو ترقی یافتہ ہڑپائی زمانے کا پتہ دیتے ہیں۔ چولستان میں بتیس ایسے مقامات دریافت ہوئے ہیں جو تین سے چار ہزار سال قبل از مسیح پرانے ہیں۔ان کا موقف ہے کہ تاریخ کے ایک ایک قدم پر ملتان اپنی جغرافیائی اور علیحدگی کا ثبوت ملتا ہے ایسے میں سرائیکیوں کا الگ جغرافیائی خطہ تسلیم نہ کرنا ہزاروں برسوں پر محیط تاریخ کا انکار ہے۔
محبوب تابش سرائیکی زبان کو پنجابی سےعلیحدہ زبان اورقدیم ترین مانتے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ اگرسرائیکیوں کی لسانی شناخت کو تسلیم کر لیا جائے توپھرسرائیکیوں کو علیحدہ قومی حیثیت کو بھی تسلیم کرنا پڑے گا یہی وجہ ہے سرائیکی کو پنجابی زبان کا علیحدہ لہجہ قرار دے کر اس کی تضحیک کی جاتی ہے اورسرائیکی قوم کے وجود کا انکار کیا جاتا ہے۔ان کے بقول اگر سرائیکی کی علیحدہ لسانی شناخت کو تسلیم کر لیا جائے تو پھر تمام معاشی اور سیاسی امور پرسرائیکیوں سے بات چیت اور لین دین کرنا ہوگا جو پنجاب کے حکمران طبقات کسی صورت نہیں چاہتے۔
محبوب تابش شاکی ہیں کہ ترقی پسند پنجابی سیاسی ورکرز، لبرل روشن خیال دانشوراور ان کے ہمنوا سرائیکی قوم پرستی کا یہ کہہ کر بطلان کرتے ہیں کہ یہ تو طبقاتی مسئلہ ہے سرائیکیوں کی مسئلہ شناخت نہیں ہے اور نہ ہی یہ لسانی مسئلہ ہے پس سرائیکیوں کو چاہیے کہ وہ طبقاقی جدوجہد کریں اور اپنے علاقے کے جاگیر داروں اور سرداروں سے نجات حاصل کریں جنھوں نے ان کے حقوق غصب کر رکھے ہیں۔
محبوب تابش کی یہ کتاب قوم پرستی کے جذبے کے تحت لکھی گئی ہے ۔ مذہب پرستی اور قوم پرستی دونوں کا انحصارحقائق سے زیادہ جذبات پر ہوتا ہے۔ اس کتاب مصنف بھی قوم پرستی کے زیر اثر اکثر مقامات پرجذبات کی رو میں بہتے چلے جاتے ہیں اورحقائق کا دامن چھوڑ دیتے ہیں۔ ان کے ماخذ ثانوی ہیں اورانھوں نے بہت حد تک پہلے سے اس موضوع پر شائع شدہ مواد کو استعمال کیا ہے۔ پنجابی ترقی پسند کارکنوں کو سرائیکی قومی تحریک کا ساتھ نہ دینے پر مطعون کرتے اور لیبر پارٹی کی تعریف کرتے ہیں لیکن یہ خبر شائد ان تک نہیں پہنچی کہ لیبر پارٹی عرصہ ہوا ختم ہوچکی ہے اور اب اس نام کوئی پارٹی موجود نہیں ہے۔
پبلشر: فکشن ہاوس مزنگ روڈ لاہور